برصغیر پاک و ہند کے معروف بزرگ حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کا 751 ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات اوچ شریف میں شروع ہو گئی ہیں۔ سابق چیئرمین سینٹ نیئر بخاری گزشتہ روز اوچ شریف آئے سجادہ نشین سے ملاقات کی اور سید جلال الدین سرخ پوش بخاری اور دوسرے اولیاء کرام کے مزارات پر حاضری دی۔ عرس کی تقریبات کئی دنوں تک جاری رہتی ہیں۔ تقریبات میں وسیب کیساتھ ساتھ اندرون و بیرون ملک سے زائرین شرکت کرتے ہیں۔ عرس کی تقریبات کو مقامی زبان میں ’’اوچ دے میلے‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ثقافتی تقریبات کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ ’’اوچ دے میلے ‘‘ کا وسیب کے لوگ سال بھر انتظار کرتے ہیں ۔ میلے کے موقع پر عقیدت مندوں کی جہاں روحانی تسکین ہوتی ہے وہاں پسماندہ علاقے کے محروم لوگوں کو سستی تفریح کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری کی ولادت 595ہجری میں حضرت سید ابو المؤید علی بن سید جعفر کے گھر میں ہوئی جبکہ آپ کا وصال 17 جمادی الاول 690ہجری میں ہوا۔ اس حوالے سے 17,18,19 جمادی الاول کو عرس کی تقریبات منائی جاتی ہیں۔ آپ کو مادرزاد ولی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری 641ہجری میں اوچ شریف تشریف لائے ۔ سرخ بخاری یا سرخ پوش بخاری؟ اس بارے دو روایات ہیں ایک روایت کے مطابق آپ کا رنگ سرخ تھااس لیے آپ کو سرخ بخاری کہا گیا۔ دوسری روایت کے مطابق آپ سرخ رنگ کا لباس زیب تن فرماتے تھے اس لیے سرخ پوش بخاری کہلائے۔ آپ کی پہلی بیوی فاطمہ تھیں جن کے بطن سے سید علی اور سید جعفر پیدا ہوئے۔ 635ہجری کو پہلی بیوی کی وفات ہوئی دونوں بیٹے بخارا میں دفن ہیں۔ دوسری بیوی زینب تھی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ چنگیز خان کی بیٹی تھی اُس سے کوئی اولاد نہ ہوئی، تیسری شادی بھکر بخاری میں بدرالدین کی بیٹی زاہرہ سے کی جن کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے ایک کا نام صدر الدین محمد غوث اور دوسرے کا بہاوالدین محمد معصوم تھا ۔ حضرت صدرالدین محمد غوث کی ایک بیٹی کی حضرت جہانیاں جہان گشت سے شادی ہوئی۔ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کی ملتان سے بہت عقیدت اور نسبت تھی آپ حضرت بہائوالدین زکریا ملتانیؒ ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ (پاکپتن) اور حضرت لال شہباز قلندر (سیون شریف) کے ہمعصر تھے۔ ان چاروں بزرگوں کو ’’چار یار‘‘ کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے چنگیز خان سے ملاقات کرکے اُن کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور مشورہ دیا کہ وہ بے گناہ لوگوں کو قتل نہ کریں، اس پر چنگیز خان منگول کو غصہ آیا اور حکم دیا کہ بخاری کو زندہ جلا دیا جائے مگر اُن کی کرامت سے چنگیز کا ارادہ پورا نہ ہوااور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کی یہ بھی کرامت تھی کہ چنگیز کا آئندہ کیلئے مسلمانوں کیلئے گوشہ نرم ہو گیا۔ اس کے ساتھ بہت سی ایسی دوسری کرامات کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جو ماورائے عقل ہیں۔ اوچ شریف کو ملتان کی طرح مدینۃ الاولیاء اور مدینہ ثانی کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ملتان کی طرح اوچ شریف میں بھی بزرگوں کے بہت مزارات ہیں۔ ملتان کی طرح اوچ بھی ایک زندہ قدیم شہر ہے جس پر تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے اور بزرگان دین کے حوالے سے بھی اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ اُن کے حالات زندگی اور اُن کے کارناموں پر مستند تاریخ مرتب کی جائے، یہ کام مزارات کے سجادگان بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں بلکہ اُن کو یہ کام سب سے پہلے کرنا چاہئے تاکہ بزرگان دین کے نام سے جو ماورائے عقل روایات ہیں اُن کا خاتمہ ہو سکے اور توہم پرستی ضعیف الاعتقادی جو کہ خانقاہی نظام پر تہمت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ، کا خاتمہ ہو سکے اور وہ بزرگان دین کے مزارات جو کہ انسانوں کیلئے عافیت و محبت کا گہوارا ہیں ، کو اپنا کھویا ہوا اصل مقام حاصل ہو سکے۔ وسیب میں اوچ شریف کو بہت اہمیت حامل ہے دور دراز سے لاکھوں عقیدت مند پورا سال حاضری دیتے ہیں۔ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے علاوہ اوچ میں دیگر مقامات کی حیثیت بھی تاریخی ہے۔ ان مزارات کی نئے سرے سے تاریخ مرتب کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ مزارات کی حالت بہت خستہ ہے ان کی تعمیر ومرمت پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اوچ شریف روحانی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی مرکز بھی ہے اور اس کی اہمیت زمانہ قدیم میں علمی مرکز کے طور پر رہی ہے۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم کے بقول الازہر یونیورسٹی مصر کی لائبریری میں اوچ شریف کی تاریخ کے بارے میں بہت سی کتابیں مل جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے اوچ شریف سندھ کا دارالحکومت بھی رہا، تاریخی کتابوں میں یہ بھی آیا ہے کہ سکندر اعظم یونانی بھی یہاں آیا ، تاریخی کتب میں اوچ شریف کے بہت سے نام آئے جن میں دیوگڑھ، تلواڑہ اور چچ پور کیساتھ ساتھ 305 قبل مسیح کے دَور میں اس کا نام رام کلی کے طور پر بھی آیا ہے۔ چچ نامہ کے مؤلف نے اسے بابیہ کا نام دیا اور عرب جغرافیہ دانوں نے اسے عسقلنداہ لکھا ، اوچ شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا وجود ایک ریاست کے طو رپر بھی رہا، معروف سیاح ابن بطوطہ نے اوچ شریف کو تاریخی اور خوبصورت شہر قرار دیتے ہوئے لکھا کہ دور دراز سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔ مسلم سپہ سالار محمد بن قاسم کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اوچ میں قیام کیا۔ ہندوستان کے بادشاہ سلطان محمد غوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اوچ سے محبت اور عقیدت رکھتا تھا اور اسے اپنا مسکن ثانی قرار دیتا تھا۔ معروف سرائیکی بزرگ حضرت بابا بلھے شاہؒ کی پیدائش بھی اوچ کی ہے بعد میں آپ قصور تشریف لے گئے۔ اوچشریف کی نسبت کے حوالے سے آپ کی شاعری میں سرائیکی زبان کا غلبہ نظر آتا ہے اس کے ساتھ سرائیکی زبان کے بہت سے بڑے شاعر جانباز جتوئی بھی اوچ شریف میں دفن ہیں۔ اوچ کے دوسرے شعراء میں شمیم اوچوی، اختر تاتاری ، عطا شرر، محسن رضا، اعجاز کاظمی، فہیم کاظمی، منظر اوچوی، شوق اوچوی، ظہور حسین، شامند اوچوی اور دیگر شعراء کے نام آتے ہیں۔ آخر میں یہ بھی عرض کروں کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر جنوبی ایشیا میں بخاری سادات کا مرکز اوچ شریف ہے ۔ جامع مسجد دہلی کے بخاری برادران ہوں سید عطا اللہ شاہ بخاری یا سابق صدر پرویز مشرف بخاری ہونے کی تصدیق اوچشریف سے کرانا پڑتی ہے۔ اوچ شریف بخاری سادات کے ساتھ ساتھ گیلانی سادات کا بھی مرکز ہے۔