منحصر مرنے پر ہو جس کی امید ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے آپ بھی یہ خبریں پڑھتے رہے ہونگے کہ پستول دکھا کر راہ گیروں کو لوٹ لیا۔پولیس نے بروقت کارروائی کر کے ڈاکوئوں کو دھر لیا‘ ڈاکوئوں کے پاس ’’مال مسروقہ‘‘ کے علاوہ ایک عدد ’’نقلی پستول‘‘ برآمد ہوا۔ ’’الیکشن کمشنر‘‘ کے ہاتھ میں ’’فارن فنڈنگ‘‘ کا ایک نقلی پستول ہے‘ جس سے وہ عمران خاں کو ڈراتے اور اپنے محسن سیاست دانوں کو بہلایا کرتے ہیں‘ یہ سیاست دان اپنے اتحادی پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ گولی چلائو‘ وہ بے چارا جانتا ہے کہ اس پستول کی گولی صرف پٹاخہ ہے۔پٹاخے سے ڈرانے پر بھی اگر دوسرا فریق سپریم کورٹ پہنچ گیا تو کیا ہو گا؟ارے میاں‘ پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھائو۔پردہ جو اٹھ گیا تو کیا ہو گا؟ عرض کیا تھا کہ پرویز الٰہی عمران خاں کوئی مدد یا تعاون سے پہلے اپنے اردگرد کے خطرات کو کم کرے گا‘ اسے اپنے چچیرے بھائی شجاعت حسین کا حساب برابر کرنا ہے‘ کل بروز جمعہ یہ کالم چھپا اور اس کے ساتھ یہ خبر بھی شائع ہو گئی کہ مسلم لیگ(ق) کے سینئر رہنما کامل علی آغا کی صدارت میں مسلم لیگ(ق) کی کونسل کا اجلاس ہوا‘ جس میں چوہدری شجاعت کو اپنی طویل علالت اور علالت کے باعث ان کی فیصلہ سازی کی اہلیت میں بگاڑ کے سبب عہدہ صدارت سے ہٹا کر پرویز الٰہی کو مرکزی صدارت سونپنے کا فیصلہ کیا گیا‘ اس کے ساتھ پارٹی کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کو اپنی ہی جماعت کے خلاف سازش کا حصہ بننے پر معزول کر دیا گیا‘ وزارت اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں بے ضابطگی کے مرتکب ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کو بھی عدم اعتماد کر کے اپنے عہدہ سے ہٹا دیا گیا ہے‘ گویا ’’خس کم جہاں را پاک‘‘ پرویز الٰہی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے پہلے دن نہ صرف اپنے اردگرد جھاڑ جھنکار کو صارف کر دیا بلکہ تحریک انصاف کی طرف سے سپیکر کے لئے نامزد امیدوار کو انتخاب میں 185ووٹ ملے‘جبکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیامیدوار کو 175کو ووٹ ملے ۔اور چار ووٹ مسترد ہوئے ہیں ۔یہ چار ووٹ کیوں مسترد ہوئے اس کامسلم لیگ ن کے میاں شہبازشریف یا حمزہ کو کھوج لگانا چاہیے۔یہ بھی عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کے استعفے منظور نہیں کئے گئے ،اس لئے وہ مرکزی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی لا سکتے ہیں، اگرچہ یہ خود تحریک انصاف کے لئے بھی پسندیدہ آپشن نہیں تھا مگر اس کے تدارک کے لئے شہباز حکومت نے 11ممبران اسمبلی کے استعفے منظور کر کے موہوم خطرے سے بچنے کی تدبیر کی ہے لیکن دو بڑے حقیقی خطرات بلکہ عفریت منہ کھولے تیزی سے شہباز حکومت کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ یہ دونوں ایسے حقیقی اور ہلاکت خیز ہیں کہ ان سے بچ نکلنا تقریباً ناممکن لگتا ہے1۔ صدر مملکت کی طرف سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم۔2۔ عمران کی طرف سے مرکزی حکومت کے خلاف پہیہ جام کا اعلان یا اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ۔25مئی کے مقابلے میں حالات اتنے بدل گئے ہیں کہ اب رانا ثناء اللہ کے لئے اس کا مقابلہ بہت مشکل ہو جائے گا، بعض نادان دوست اور ہوشیار دشمن یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیاں توڑ کر مرکزی حکومت پر انتخابات کے لئے دبائو بڑھایا جائے حالانکہ تحریک انصاف کے ہاتھ میں ان حکومتوں کا دبائو کہیں زیادہ ہے‘ اسمبلیاں توڑنا مرکزی حکومت کی مدد کرنا اور ڈوبتی نائوکو پھر سے زندہ کرنے کے مترادف ہے‘ جب سے اس امکان کے بارے خبریں آنا شروع ہوئیں کہ تحریک انصاف صوبائی حکومتوں کو برقرار رکھتے ہوئے مرکز کے خلاف ایسے اقدامات کرنے جا رہی ہے کہ وفاقی اسمبلی کے الیکشن ناگزیر ہو جائیں‘ پی ڈی ایم کے سبھی لیڈر اچھی طرح جانتے ہیں کہ دو ووٹوں کے سہارے کھڑی حکومت کو جاری رکھنا کس قدر جان جوکھم میں ڈالنا ہے۔مقبول سیاسی رہنما اور پنجاب کی حکومت کے لئے‘ دس پانچ ممبران کو بہکانا یا ورغلاناکوئی مشکل کام نہیں ہے۔ شہباز شریف کے لئے یہ وقت سر نیچے کئے دبے پائوں‘ پچھلی گلی سے نکل جانے کا ہے‘ لیکن عاقبت نااندیش عرف رانا ثناء اللہ خواہ مخواہ سب کی توجہ دلا رہا ہے‘ اب انہیں (شہباز شریف) کو مقدمات میں ضمانتیں چاہیے‘ ہو سکے تو گلو خلاصی‘ غنیمت کے طور پر چند ایک اثاثہ جات کی فروخت جن سے ہاتھ رنگے اور جیب بھاری ہو‘ اس طرح اور بہت سے معاملات‘ بے وجہ اداروں کو متوجہ کر کے نہ صر ف اپنی بلکہ اپنے مالکان کی مشکلات میں بھی اضافے کا سبب بن رہے ہیں‘ آپ کے برے دن چل رہے ہیں کئی عشرے‘ عشرت میں گزارے‘ اب ’’ساڑھ ستی‘‘ لگ گئی ہے ،کہتے ستاروں کی ساڑھ ستی لگ جائے تو کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی‘ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں‘ جو کچھ لیا جا چکا ہے وہ دینا پڑے گا‘ خیریت بچ بچا کے نکل جانے میں ہے‘ رانا ہے کہ خود تو ڈوبے ہیں صنم اور کو بھی لے ڈوبیں گے‘ حالت اپنی یہ ہے‘ عید کی نماز کے لئے اپنے محلے کی مسجد تک جانے کا حوصلہ نہیں‘ حکومت سسکیاں لے رہی ہے‘ بھاگ نکلنے کی راہ تلاش رہے ہیں‘ مقبول ترین لیڈر اور سب سے بڑے صوبے کی حکومت کو ٹوٹی ہوئی بیساکھیوں کے سہارے کھڑے لولے لنگڑے سیاستدان گورنر راج کی دھمکی لگاتے ہیں‘ ایسی دھمکی جس کی دھمک سے خود ہی زمین پر آ گریں گے۔۔۔عمران خاں اور پرویز الٰہی کے مقابلے میں وفاقی حکومت کے اسلحہ خانے میں کیا ہے؟ ان کے اسلحہ خانے میں اندر تک جھانک کے دیکھا توکچھ بھی نہیں ملا۔ سوائے اس کے کہ کچھ دن عدلیہ اور دوسرے اداروں کے خلاف تقریریں کر کے مزاحمت کا ڈھونگ رچائیں‘ اچانک اسمبلیاں توڑیں یا استعفیٰ دیں اور انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکی کے سوا ان کے پاس ر کھا ہی کیا ہے۔یہ دھمکی بھی ’’پھوکا‘‘ فائر ہے کہ پیپلز پارٹی سبق سیکھ چکی ہے وہ کبھی بائیکاٹ پر آمادہ نہیں ہو گی نہ ہی بلوچستان کے سردار ان کا رسک لے سکتے ہیں۔ہاں البتہ حکومت گرانے کا ایک آسان نسخہ اور بھی ہے، وہ ہے ایم کیو ایم کو منانے کے لئے‘ کسی نامعلوم نمبر سے آئی ٹیلی فون کال کی ضرورت بھی نہیں ہے۔اگر تحریک انصاف انہیں یقین دلا دے کہ ایم کیو ایم کے موجود ممبران اسمبلی کے مقابلے میں وہ اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرے گی تو اتنا سہارا بھی ان کے لئے بہت ہے۔بہت ہے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی‘ مگر یہ تو لائف جیکٹ ہے۔ (ختم شد)