اس وقت سندھ کا وہ حال تو نہیں کہ ہم’’کھنڈر کو دیکھ کر عمارت کے گن گائیں‘‘ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سندھ کی سیاست میں اب وہ شوخی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ جنرل ضیاء کے دور میں تو سندھ سیاسی طور پرآتش فشاں پہاڑ کی مانند تھا۔ اب سندھ کی سیاست کا وہ حال ہے جو علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں بیاں کیا ہے: آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں ایک وقت ایسا تھا کہ سندھ کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے چھلکتی تھیں اور یہ صرف جنرل ضیاء الحق کے دور میں نہیں تھا مگر زیڈ اے بھٹو کے دور میں بھی سندھ اپنے سیاسی شعور اور مزاحمتی مزاج کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جس میں سندھی ادب بہت سرکش اور بیحد تخلیقی تھا۔ ہم اس دور کی بات کر رہے ہیں،جس دور میں شیخ ایاز جیسے عظیم شاعر کو صرف باغیانہ شاعری کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا تھا۔اب تو پورے پاکستان میں ایسا کلچر نہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں سوچنا چاہئیے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ کیا ادب اور سیاست میں ایک ساتھ زوال آتا ہے؟ ممکن ہے کہ اس صورتحال کے بھی سماجی اسباب ہوں۔ اور یقینی طور پر ہونگے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ہم قحط الرجال جیسی کیفیت سے گذر رہے ہیں۔ سندھ تو اب بھی ابھرنا چاہتا ہے۔ سندھ اب بھی سیاسی طور پر ملک کی قیادت کرنے کا خواہشمند ہے مگر صرف خواہشات سے سب کچھ نہیں ہوتا۔ خواہش کا کردار بھی ہوا کرتا ہے مگر وہ صرف ایک فیصد۔تخلیقی ادب اور صاف ستھری جمہوری سیاست کے لیے 99 فیصد محنت درکار ہوتی ہے۔ جب تک کسی محنت میں قربانی کا عنصر شامل نہیں ہوتا تب تک وہ محنت رنگ نہیں لاتی۔ سندھ نے عظیم ادب اور عوام دوست سیاست کے لیے جو قربانیاں دی ہیں ہم کب تک اس کا تذکرہ کرکے اپنے آپ کو خوش کرتے رہیں گے۔ ماضی بہت اچھا ہے مگر سبق حاصل کرنے کی حد تک۔ سندھ میں اس وقت جو ادب لکھا جا رہا ہے اس کے بارے میں پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بسنے والے لوگ کم جانتے ہیں۔ کیوں کہ اب تک پاکستان میں ہم لسانی رکاوٹوں کو عبور نہیں کر پائے۔ اہلیان پاکستان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ اب سندھ میں ایسا ہی ادب لکھا جا رہا ہے؛ جیسی سیاست کی جا رہی ہے۔ ادب اور سیاست کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ اس سوال کا جواب بہت گہرا اور طویل ہوگا مگر مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی خطے کی سیاست کو پرکھنے کے لیے اس خطے کے ادب کا مطالعہ بیحد ضروری ہے۔ اور یہ بات دو دھاری تلوار کی مانند ہے۔ اگر کسی ملک کی سیاست زوال کا شکار ہے تو آپ کو یقین ہونا چاہئیے کہ اس ملک کا ادب بھی بہت کمزور ہوگا۔ امریکہ ادبی زوال کا شکار ہے۔ اب وہاں تخلقی ادب کا چراغ گل ہو چکا ہے۔ اس لیے اب امریکہ کی جمہوریت میں بھی وہ بات نہیں رہی جس پر کل تک امریکی بڑا فخر کرتے تھے۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ امریکہ کے سیاسی زوال کا ثبوت ہے۔ امریکہ دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ وہ اب تک جمہوری سیاست کا روح رواںہے۔ جب کہ امریکی سیاست کے ڈھول کا پول ان انتخابات نے کھول کر رکھ دیا ،جس کے بارے میں امریکی اسٹیبلشمینٹ خود بھی حیران ہے۔امریکہ کے جمہوری ادارے پر دھاوا بولنے کا واقعہ معمولی نہیں تھا اور امریکی صدر کی حلف برداری جس طرح ایمرجنسی حالات میں ہوئی وہ بھی ناقابل فراموش ہے۔جب امریکہ جیسا ملک سیاسی زوال کا شکار ہو سکتا ہے تو تیسری دنیا کے ممالک پر تنقید کرنا کس قدر عجیب ہے؟ امریکہ تو خود کو سپر پاور کہلاتا ہے۔ کیا وہ اب تک سپر پاور ہے؟سپر پاور بننے کے لیے صرف ایٹمی ہتھیار اور دور تک مار کرنے والے میزائل کافی نہیں ہوتے: بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل کچھ اور چاہئیے وسعت میرے بیاں کے لیے سندھ کی سیاست اس وقت پیپلز پارٹی کے گرد گردش کر رہی ہے مگر یہ وہ پیپلز پارٹی نہیں جس پیپلز پارٹی نے پاکستان کی سیاست میں جیالوں کو جنم دیا تھا۔وہ بریانی والے جیالے نہیں تھے۔ وہ کرائے کے سیاسی ورکر نہیں تھے۔ وہ خودار اور باضمیر سیاسی ورکر تھے۔ ان کے دلوں میں ایک خواب تھا۔ وہ خمار والے سیاسی ورکر نہیں تھے۔ وہ خوابوں والے سیاسی ورکر تھے۔ وہ گلابوں والے سیاسی ورکر تھے۔ ایسے سیاسی ورکر تھے سندھ میں۔رسک لینے والے۔ اس بات پر فخر کرنے والے کہ ان کا لیڈر کرپٹ نہیں۔ ان کا لیڈر ایماندار اور سچا ہے۔دنیا بری ہے۔ وہ بھلا ہے۔اور اس وقت سیاست تھی کیا؟ ایک نعرہ تھی۔ ایک نغمہ تھی۔ ایک صدا تھی۔جب سیاست کاروبار بن جائے تب سیاست کا زوال آتا ہے۔ اور کاروبار بھی ایک برا لفظ نہیں۔ دھندہ بہت برا لفظ ہے۔ اب ہماری سیاست دندھ بن گئی ہے۔ پورے پاکستان کی طرح اہلیان سندھ سیاست کے اس روپ سے نفرت بھی کرتے ہیں اور پھر مجبور ہوکر اس سے سمجھوتہ بھی کر لیتے ہیں۔ کیوں کہ اگر جگ میں جینا ہے توکچھ نہ کچھ تو کرنا ہے۔ اگر اس دور کی باغیوں میں جرئت انکار نہیں تو پھر ایک مجبور سا اقرار کرنے کے علاوہ اور کیا چارہ بچتا ہے۔لوگ کچھ بھی کہیں کہتے رہیں مگر انسان سماجی جانور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی ماحول میں تو بستا ہے۔ اگر یہ دنیا اس کے خیالات جیسی نہیں تو پھر اس کے سامنے دو راستے ہیں۔ یا تو وہ اس دنیا کو تبدیل کرے یا خاموشی سے اس دنیا کا حصہ بن جائے۔ مگر مشکل تب پیش آتی ہے جب انسان مکمل طور پر اس دنیا کا حصہ نہیں بن پاتا جس دنیا کو وہ پسند نہیں کرتا۔ ایسے حالات میں وہ مجبوری کے تحت ایک طرح کا فیصلہ کرلیتا ہے اور اس فیصلے میں اس کا کرداربہت کمزور ہوتا ہے۔ اس حالت میں وہ شخص نہ چاہتے ہوئے بھی اس نظام کا حصہ بن جاتا ہے جس کے ساتھ وہ اتفاق نہیں کرتا۔ سندھ میں اچھی اورسچی سیاست کی خواہش ہے اور شدت کے ساتھ ہے مگر وہ معاشرتی مجبوریوں کے تلے دبی ہوئی ہے۔ وہ تبدیلی کبھی کبھی بھرپور انداز سے مچل اٹھتی ہے مگر انسان اس کو کنٹرول میں رکھنے کے سلسلے میں کیا کیا نہیں کرتا؟ سندھ کے میڈیا میں اہلیان سندھ کی وہ خواہش بھرپور انداز سے ظاہر ہوتی ہے مگر صرف تحریر تک۔ وہ خواہش عمل میں نہیں آتی۔ سیاست علم ہے۔ مگر وہ علم عمل کے بغیر ادھورا ہے۔ سندھ پیپلز پارٹی کی کھوکھلی اور دوغلی سیاست سے بہت تنگ ہے مگر اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ اس لیے وہ بار بار لوٹ آتا؛ اسی راہ پر جس راہ پر اب بجھی ہوئی آگ اور ٹوٹی ہوئی طناب کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ سندھ اس تبدیلی کو عمل میں لانا چاہتا ہے مگر اس کے پاس وہ پارٹی نہیں جو اس کو اپنے آپ میں سمائے اور اس سماج کو ایک بہتر سماج بنائے۔ سندھ اس کیفیت کے کرب سے نکلنے کے لیے کوئی نہ کوئی کوشش کرتا رہتا ہے اور پھر تھک ہار کر اپنے آپ سے کہتا ہے: بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے