اکیسویں صدی کا طلوع ہونے والا ہر سورج مسلمان حکمرانوں کی بے بسی اور بے حسی کو عیاں سے عیاں تر کر رہا ہے۔2001ء میں انڈیورنگ فریڈم کے نام پر نہتے اور تباہ حال افغانیوں پر امریکی آتش و آہن کی بارش پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی اور لاچاری اس آگ کو 2003ء میں عراق تک لے آئی۔ افغانستان اور عراق کے 5لاکھ مسلمانوں کا قتل ناحق بھی جب خون مسلم میں حرارت پیدا نہ کر سکا تو یہ لہو رنگ اسلام دشمنی عرب بہار بن کر اٹھی ۔ تیونس، لیبیا، یمن کے حکمران عوام کی حمایت کے بغیر ریت کے قلعے ثابت ہوئے۔ انجام مگر کشت و خوں تباہی اور اسلامی ممالک میں عدم استحکام تھا ۔شام کو عالمی طاقتوں کی پراکسی نے تہہ و بالا کر دیا تو یمن عالمی سازشوں اور اپنوں کی ہوس سے راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ عالم اسلام کی امامت کے دعویدار حکمرانوں نے مزاحمت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے ظالم کے سامنے نہ صرف گھٹنے ٹیک دیے اور یمن کی تباہی میں حصہ دار بن گئے۔ نتیجہ 20ویں صدی میں صرف فلسطین ظالم کی چراگاہ تھا ،اکیسویں صدی میں پورا مشرق وسطیٰ مقتل بن گیا۔ اگر کسی نے امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی تو وہ ترکی اور ایران تھے۔ ترکی نے عراق جنگ میں اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کی جرات دکھائی تو ایران فلسطین اور لبنان کے بعد عراق شام اور یمن میں اپنے انداز میں امریکی منصوبوں میں رکاوٹ بنتا رہا۔ ایران کو جواب میں امریکی انتقام کا سامنا بھی رہا۔ امریکہ ایران کے ساتھ 5بڑوں کے جوہری معاہدے سے نکل گیا اور پابندیوں کی صورت میں ایران پر معاشی جنگ مسلط کر دی۔ امریکہ اور ایران کے تنائو میں اسلامی دنیا بے حس و حرکت رہی اور اس بے بسی کا فائدہ اسرائیل نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنا کر اٹھایا۔ عرب دنیا نے 6دھائیوں سے جاری جنگ میں ہتھیار ڈال کر اسرائیل کے فلسطین اور القدس پر جابرانہ تسلط کو خاموشی کی صورت میں نہ صرف منظوری کی سنددی بلکہ ایران کے خلاف اسرائیل کے غیر اعلانیہ اتحادی بھی بن گئے۔ اسلامی دنیا پر امریکی تباہی اور لاقانونیت کے خلاف ایران ترکی پاکستان ملائشیا چین اور روس کی صورت میں ایک امید پیدا ہوئی اور چین اور روس نے افغانستان میں اپنا فعال کردار بھی ادا کیا جس سے خطہ میں امریکہ کے متبادل مضبوط بلاک کی ماضی کی خواہش پوری ہوتی بھی محسوس ہوئی۔ ترکی پاکستان اور ملائشیا نے ایران اور سعودی عرب مخاصمت کو زائل کرنے کے لئے مل کر کوششوں کا عہد کیا۔ ملائشیا کے مہاتیر محمد نے اپنے ملک میں پاکستان اور ترکی کی تائید سے اسلامی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تاکہ عالم اسلام کو نفاق کی دلدل سے نکال کر اتحاد امت کی کوئی سبیل کی جا سکے۔ مگر امریکی منصوبہ سازوں نے سعودی عرب کے ذریعے یہ کوشش بھی ناکام بنا کر مسلمانوں کو باہم نفرت کی اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ۔سعودی عرب کی مخالفت کے باوجود کانفرنس کا انعقاد تو ممکن ہو گیا،دوسری طرف ایران نے شام میں امریکی منصوبہ کو ناکام کرنے کے بعد عراق میں امریکی اثرورسوخ کم کرنے کے لئے بھر پور جدوجہد کا آغاز کیا تو امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین شام اور لبنان میں ایران کے حمایتیوں پر حملے شروع کر دیے ۔گزشتہ اتوار کو مغربی عراق کے شہر کرکوک میں امریکی فضائی حملے میں ہلاکتوں کے خلاف ایران نواز عراقیوں نے امریکی قتل عام کے ردعمل میں بغداد میں امریکہ کے سفارت خانے کا محاصرہ کر لیا۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان تنائو 2020ء میں اپنی خطرناک انتہا کو پہنچ گیاہے۔ایران کے قدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کے فوجی کمانڈر پر امریکی فضائی حملہ خطہ کو جنگ کے دھانے پر لے آیا ہے۔ قاسم سلیمانی ایران کی قدس بریگیڈ کے سربراہ اور سرحدوں کے باہر ایرانی مفادات کے محافظ ہی نہیں ایران کی خارجہ پالیسی کے اہم پالیسی سازوں میں بھی شمار ہوتے تھے۔ اس امریکی اقدام کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ پینٹگان نے بھی اس کارروائی کو امریکی صدر کاحکم قرار دے کر ایک طرح سے بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ ٹرمپ کے سابق نائب صدرجوبائیڈن نے اس اقدام کو بارود کو ماچس دکھانے کے مترادف کہا۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کی شہادت تشدد کی لہر میں خطرناک اضافے کی وجہ بنے گی۔ پلوسی کے مطابق امریکہ اور دنیا ناقابل واپسی سطح تک جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔عالمی سطح پر ٹرمپ کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے نیٹو اتحادی فرانس نے اس اقدام پر کسی ایک فریق کی طرفداری سے انکار کا کہہ کر امریکہ کے چنگل سے نکلنے کا عندیہ دے دیاہے ۔ چین کا ردعمل روایتی طور پر محتاط ہے کہ فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں۔ روس نے امریکی اقدام کو آزاد ممالک میں مداخلت ،عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور ایران کے خلاف اعلان جنگ سے تعبیر کیا ہے۔ اسلامی دنیا کے ردعمل کا اندازہ پاکستان کی طرف سے امریکی اقدام کو تشویشناک قرار دینے سے ہی ہو جاتا ہے۔ عالمی امور کے ماہرین پاکستان ترکی اور ملائشیا کے اتحاد کی کوششوں کے تناظر میں اس اقدام کو دیکھ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب اور یو اے ای نے اگر امریکہ کے اقدام کی حمایت نہ بھی کی تو خاموش تائید ضرور کریں گے۔ ان حالات میں باقی اسلامی دنیا کے ممالک اپنی اپنی بقا کی فکر میں ہوں گے۔ اسلامی دنیا مگر اکیسویں صدی کے بدلتے تناظر میں ایک بات سمجھنے سے مسلسل قاصر ہے کہ اقوام عالم میں ممالک کی بقا سلامتی اور سالمیت کا انحصار وسائل افرادی قوت پر نہیں بلکہ خود مختاری، خود انحصاری اور اخلاقی جرأت پر ہوتا ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو ممالک کو آزادانہ فیصلے لینے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے جبکہ اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان کی خارجہ پالیسی کی عکاسی تو اس شعر سے ہو جاتی ہے ؎ مے بھی ہوٹل میں پیو چندہ بھی دو مسجد میں شیخ بھی خوش رہیں شیطان بھی بے زار نہ ہو