پچھلے کئی ہفتوں سے، خصوصا جب سے یکساں تعلیمی نصاب کا باضابطہ اجراء ہوا ہے، وزیراعظم عمران خان انگریزی زبان اور طرز عمل کے خلاف شدومد سے بول رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ برطانوی سامراج کی باقیات میں سے ہیں۔ بقول وزیراعظم ہم اس استعماری فکر کے اثرات سے صرف اسی صورت محفوظ  ہو سکتے ہیں اگر ہم ہر وہ شے جو انگریز سے منسوب ہے اسے ترک کر دیں۔ انگریزی طرز عمل وزیر اعظم کے نزدیک ذہنی غلامی کی زنجیر ہے جسے کاٹ پھینکنا ہو گا۔ وزیراعظم نے دو چیزوں کا بطور خاص ذکر کیا جنہیں فوری طور پر نظام کار سے نکالنے کی ضرورت ہے: انگریزی زبان اور انگریزی لباس۔ اس تناظر میں جب روشن پاکستان پروگرام کا افتتاح ہوا اور تقریب میں دکھائے گئے ایک اشتہار میں ماڈل کو پینٹ شرٹ میں دکھایا گیا تو وزیراعظم اپنی ٹیم پر برس پڑے۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو بلاشبہ وہ اردو زبان کو دوسری کسی بھی زبان پر فوقیت دینے کی بات کرتے تھے لیکن انگریزی زبان کو مکمل طور پر کالعدم کرنے کے حوالے سے ان کا موجودہ رویہ قابل غور ہے۔ اسی طرح یکساں نصاب تعلیم تیار کرنے والی ٹیم بھی اس نصاب کے پاکستانی ہونے پر نازاں نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر قوم کو اپنی قومی زبان پر فخر ہونا چاہیے اور اپنی ثقافت کو ہر قسم کی بیرونی مداخلت اور ملاوٹ سے محفوظ رکھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے لیکن اگر ہم زبان اور ثقافت کے اس حصار کو اس طرح باندھ دیں کہ نہ تو یہ کسی بیرونی فکر کا اثر قبول کرے اور نہ اپنی ترقی و ترویج سے دوسروں کو متاثر و مستفید ہونے کا موقع دے تو یہ ایک نئی طرح کی ذہنی غلامی کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ چین اور جاپان اپنی ثقافت کے معاملے میں حساس رہے ہیں لیکن انہوں نے انگریزی طور طریقے اپنانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ چین کے صدر شی جن پنگ سوٹ پہنتے جبکہ چین کا اپنا قومی لباس بھی ہے جسے Changshan کہتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان قومیت اور حب الوطنی کو گڈ مڈ کر رہے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی حب الوطنی اور قومیت ایک سمجھنے کی غلطی کی گئی اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے۔ قومیت کے زیر اثر ثقافت، زبان اور نسل پر حد سے زیادہانحصارایک خاص قسم کی تقسیم ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ ہم اس طرز فکر کو بھگت چکے ہیں جب ایک خاص طبقے کی جنونیت نے فرقہ وارانہ شدت پسندی کو ایسی ہوا دی کہ پورا نظام ایک دفعہ ہلا کر رکھ دیا ۔ اس کے برعکس حب الوطنی باہمی محبت اورجدیدیت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ محبت اور جدیدیت ثقافت اور تاریخ سے ماورا نہیں بلکہ اس کی ترجمان ہوتی ہے۔ لیکن وسعت اور تنوع کے ہوتے ہوئے مثبت رجحانات کو سمونے اور فروغ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قوموں کی ترقی کا یہی راز ہوتا ہے۔ ثقافت ہو یا زبان اگر ارتقا نہ کرے تو منجمد ہو کر ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ پاکستان ایجوکیشن کونسل کے صدر میاں عمران مسعود کا ماننا ہے کہ آج مسلمانوں کو پہلے سے کہیں زیادہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سرسیداحمدخان ، قائداعظم اور علامہ اقبال کے نقش قدم پر چلنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دو قومی نظریے کی وکالت کے باوجود انگریزی زبان کو ترک کرنے کی کبھی بات نہیں کی۔ جب سرسید احمد خان مسلمانوں کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دے رہے تھے تو وہ انہیں کسی طوق کو پہننے کا نہیں کہہ رہے تھے بلکہ اس فرسودہ نظام سے باہر آنے کا کہہ رہے تھے جس کی وجہ سے وہ بوسیدہ اور غیرفعال طرز زندگی کے پابند بنے بیٹھے تھے۔ ماڈرن ہونے کا مطلب مذہب سے بے زاری نہیں۔ ماڈرن ہونے کامطلب کامیابی کے ان راستوں کی تقلید ہے جن پر ترقی یافتہ قومیں گامزن ہیں۔ انگریزی زبان کا میک کلچر کے پھیلاؤ سے کوئی تعلق نہیں جو کہ استعماری نظام کی نئی شکل ہے۔ جب چین نے اپنے دروازے کیپیٹلزم کے لیے کھولے تو اس نے کھلے بازووں سے میک کلچر کا خیرمقدم کیا۔ اس ڈر سے ماورا ہو کرکہ یہ ثقافتی درندازی چینی اقدار کو متاثر کرے گی۔ میاں عمران مسعود کو خطرہ ہے کہ یکساں تعلیمی نظام سے متعلق ہمارا شدت پر مبنی طرز عمل اور اس سے پیدا ہونے والی انگریزی زبان سے نفرت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بن جائے۔ ‘‘ ابھی تو ہم نے سانس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پاوں بھی نہیں رکھا۔ ابھی تو ہم ان گزرگاہوں پر چلنے کے لیے مغریب کی تقلید کے پابند ہیں۔ اس مرحلے میں انگریزی زبان کی بابت یہ کہنا کہ یہ غلامی کی زنجیر پہننے کے مترادف ہے پاکستان اور نئی نسل کو زمانہ قدیم کی طرف دھکیلنا ہے۔’’ ان کا مزید کہنا تھاکہ عمران خان جو کہ ہمیشہ بیرون ملک پاکستانیوں کی بات کرتے ہیں، سی پیک کے حامی ہیں، سیاحت کی ترقی کے خواہاں ہیں ان سے تو امید تھی کہ وہ تعلیمی نظام میں تنوع کی بات کریں گے لیکن وہ تو اسے بند گلی میں دھکیل رہے ہیں۔ میاں عمران کا ماننا ہے کہ انگریزی زبان سے نفرت ملک کو علمگیریت سے نکال کر مقامیت کی طرف لے کر جانا ہے۔ ‘‘اپنی ثقافت اور زبان سے وابستگی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم انگریزی یا کسی بھی دوسری زبان کو حقیر سمجھنا شروع کردیں۔ اردو کو بطور نصابی زبان ضرور اپنائیں لیکں اس قیمت پر نہیں کہ غیر ضروری طور پرانگریزی طرز عمل اور زبان کی توہین کی جائے۔’’ میاں عمران کا ماننا ہے کہ زبان سیکھنے کی اصل جگہ بچے کا گھر ہے۔سکول کی ذمہ داری اپنی جگہ لیکں زبان اور ثقافت سے محبت اور درست استعمال گھر میں سیکھا جاتا ہے۔‘‘د یر پا نتائج کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کے تلفظ، لفظوں کے چناو اور گرامر پر توجہ دیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ادب سے لگاو مورثی عمل ہے۔ زبان سے جڑی شناخت کابہت گہرا تعلق گھر کی چار دیواری سے ہے۔ تعلیم کا مادہ علم ہے جس کا مطلب کسی چیز کی حقیقت کو سمجھنا ہے۔ تعلیم کا مقصد کسی خاص نصاب یا زبان کا سیکھنا نہیں بلکہ اس کا مقصد حقیقت کے ادراک سے اپنے اندر چھپے ہنر اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔