وزیر اعظم عمران خان بالآخر اسی نتیجے پہ پہنچ گئے ہیں جہاں ہر معقول شخص دل ہی دل میں پہنچ چکا ہو تا ہے البتہ ہر ایک میں اس کے اعتراف کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب آپ مسند اقتدار پہ فائز ہوں اور وہ بھی کسی باوردی انکل یا ڈیڈی کی پشت پہ سوار ہوکر نہیں بلکہ بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد ، جو ہمیشہ ہی بارآور نہیں ہوتی۔اس نازک صورتحال میں جب آپ کی پشت پہ ایک سیاسی تاریخ ہو جہاں لوگ ستاروں سے سجے کاندھوں پہ لائے اور لے جائے جاتے رہے ہوں، عمران خان کو عالمی برادری کو لتاڑتے ہوئے محتاط رہنا چاہئے تھا ۔یہ مگر عمران خان ہی ہیں جو حرف مدعا زبان پہ لاتے ہوئے ذرا نہیں جھجھکتے ۔ نہ اس وقت جب ان کی سیاسی جماعت ان سمیت معدودے چند افراد پہ مشتمل تھی ، نہ اس وقت جب وہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالے بیٹھے ہیں اور آج کل عالمی برادری کو کھری کھری سنا رہے ہیں جہاں نیویارک نیوز کانفرنس میں انہوں نے برملا اعتراف کیا ہے کہ عا لمی برادری نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں انہیں مایوس کیا ہے۔ عمران خان نے تاریخ بھی پڑھ رکھی ہے اور مغرب کی اشرافیہ کی قربت ہی نہیں دیکھی بلکہ اس سے رشتہ بھی استوار کیا۔ مغرب کی سیاسی منافقت سے وہ واقف ہیں ۔ ان کے لئے عالمی برادری سے اظہار مایوسی کوئی انکشاف نہیں تھا بلکہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب وہ جو چاہیں گے کر گزریں گے۔انہوں نے جتنے دروازے کھٹکھٹانے تھے،کھٹکھٹا لئے۔ جس حد تک ضمیر کو جھنجھوڑا جاسکتا تھا، جھنجھوڑ لیا اور جتنا خبردار کیا جاسکتا تھا ، خبردار کیا جاچکا۔یہی ان کے دورہ امریکہ ، اقوام متحدہ اور عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا مقصد ہے۔ یہ دورہ برائے فیصلہ سازی نہیں برائے اعلان ہے۔فیصلہ ہو چکا ہے اور وہ وقت آنے پہ عمران خان ہی بتائیں گے جو اس وقت اپنی فل فارم میں کھیل رہے ہیں۔انہیں پریشر میں کھیلنا پسند ہے اور اسی وقت ان کی حقیقی روح دکھائی دیتی ہے اور وہ دیکھنے والوں کو دکھائی دے رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بعد میں نے تسلسل کے ساتھ یہی لکھا تھا کہ عالمی ضمیر نامی کوئی شے سرمائے کی اس دنیا میں نہیں پائی جاتی۔جس وقت کشمیر کا محاصرہ ہوا میں نے عرض کیا تھا کہ کشمیر دوسرا بوسنیا بننے جارہا ہے جہاں دروازے بند کرکے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے تاکہ وادی کی ڈیموگرافی تبدیل کی جا سکے اور اگر کبھی پاکستان کے دبائو پہ یا اقوام متحدہ کی قرادادوں کی مجبوری کے تحت استصواب رائے کروانا بھی پڑے تو نتیجہ حسب منشا نکالا جاسکے۔ آج یہی بات اسی عالمی برادری کے نمائندوں کے سامنے کہنے پہ وزیر اعظم مجبور ہوئے ہیں۔ ان سے زیاد ہ عالمی برادری کی اوقات سے کون واقف ہوگا جب افغانستان اور عراق پہ امریکی اور اتحادی افواج کے حملوں کے خلاف وہ خود لندن میں مظاہروں کی قیادت کرتے رہے۔ٹونی بلیئر کے عراق پہ حملے کے فیصلے کے بعد لاکھوں برطانیوں نے سڑکوں پہ جمع ہو کر احتجاج کیا تھا۔ کیا ٹونی بلیئر نے فیصلہ واپس لے لیا تھا؟اور کیا عراق سے وسیع پیمانے پہ تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیار برآمد ہوگئے تھے؟ یہ تو برطانیہ، امریکہ اور جرمنی ہی تھے جو صدام حسین کو کیمیاوی ہتھیار فراہم کرتے رہے اور جب حملے کا وقت آیا تو تنصیبات تباہ کردی گئیں تاکہ ثبوت ہاتھ نہ لگ سکیں۔ لاکھوں عراقیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے اور ایک مضبوط ملک کو تباہ کرنے کے بعد ٹونی بلیئر کو کندھے اچکا کر بس یہی کہنا تھا کہ غلطی ہوگئی۔اطلاعات غلط تھیں ہماری انٹیلی جنس سے چوک ہوگئی۔اور عالمی برادری نے اس عذرکو ذرا سی بھنبھناہٹ نما احتجاج کے ساتھ تسلیم کرلیا ۔لیبیا میں آج تک ان ہی مغربی طاقتوں کا کھیل جاری ہے جس میں ہمارے اسلامی بھائی بھی حسب توفیق ہاتھ سینک رہے ہیں۔ ملک عملا تین حصوں میں بٹا ہوا ہے اور افریقہ کا مضبوط ترین ملک تباہ ہوچکا۔جہاں عوام کو ایک ڈکٹیٹر بجلی اور پیٹرول مفت دیا کرتا تھا آج اس کا تیل اٹھائے جس کا جدھر سینگ سما رہا ہے بھاگ رہا ہے۔ سب سے تکلیف دہ صورتحال تو اس ملک نے بنا رکھی ہے جس کے صدر نے کل نہایت دل گرمادینے والے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کا ذکر کیا لیکن وہی لیبیا اور عراق سے تیل نکال کر اپنی پورٹ چیہان کے ذریعے اسرائیل کو فروخت کررہے ہیں۔وہی اسرائیل جس نے فلسطین پہ ناجائز قبضہ کررکھا ہے جسے وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ توسیع دے رہا ہے اور وہ فلسطین جس کا ذکر کرتے موصوف کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ یہ عالمی برادری ہی تھی جو افغانستان جیسے درماندہ ملک پہ ایسے ٹوٹ پڑی تھی جیسے بھوکے بھیڑیے اکیلی بھیڑ پہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس وقت تو ہم بھی ان کے ہم رکاب تھے ، ہاں یہ عمران خان ہی تھے جو اس وقت بھی اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بنے نیٹو سپلائی روکتے نظر آتے تھے۔ تب بھی عالمی برادری کے خلاف جانے والا ان کا یہ قدم اقتدار کی راہ کی رکاوٹ بن سکتا تھا،لیکن انہوں نے نہ اس وقت پروا کی نہ اس وقت جب وہ نیویارک میں اسی عالمی برادری کو اس کی بے حسی کے مضمرات بڑے رسان سے سمجھا رہے تھے۔ وہ عالمی برادری جو کشمیر یوں کے خون سے رنگے بھارتی ہاتھ اس لئے چوم رہی ہے کیونکہ وہ ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ان کا سوال بجا تھا کہ کیا مادہ پرستی ، انسانیت پہ حاوی ہوگئی ہے۔ اس سوال کا جواب انہیں معلوم ہے کہ ہاں ایسا ہی ہے ۔اسی لئے انہوں نے یہ بھی جتا دیا کہ اگر جوہری جنگ ہوئی تو نہ منڈی رہے گی نہ تجارت۔ عالمی فورم پہ نہایت شائستگی سے اس سے بڑی دھمکی ابھی تک کسی نے دی نہیں تھی۔اس سے قبل فارن افئیرز فورم میں انتہائی متعصب پینل کے تابڑ توڑ سوالات کے جواب میں انہوں نے امریکہ کو جو آئینہ دکھایا اس کی جرات بھی ان ہی کاخاصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد ی کا سرپرست پاکستان نہیں بلکہ امریکہ ہے جو کل کے مجاہدوں کو، جنہیں سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے تربیت دی، آج دہشت گرد کہتا ہے ۔وہ تو اٹھارہ سال سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ تھی ہی نہیں نہ ہی ایسی جنگ جیتی جاسکتی ہے چاہے آپ دنیا بھر کی فوج اور ٹیکنالوجی اکٹھی کرلیں۔اس جنگ نے امریکہ کا کم پاکستان کا زیادہ نقصان کیا۔ اس لیے آپ اپنا دریدہ دہن بند رکھیں تو اچھا ہے۔ انہیں اس وقت یقینا میری طرح کوفت ہوئی ہوگی جب پینل کے شرکا بھارتی فوج کی کشمیری خواتین کی منصوبہ بندی کے تحت عصمت دری اور جوانوں کے قتل عام کو مکمل طور پہ نظرانداز کرکے پاکستان میں غیرت کے نام پہ قتل اور ناموس رسالت قانون میں تبدیلی کا سوال اٹھاتے رہے۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب عالمی ضمیر کی بے حسی ان پہ پوری طرح آشکار ہوئی ہوگی۔