عالمی بنک نے تعلیمی ایکشن پروگرام کے اجرا کے موقع پر اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں دس سال تک کی عمر کے 75 فیصد بچے تعلیمی افلاس کا شکار ہیں۔ یہ تعلیمی غربت اس سطح کی ہے کہ سکول جانے والے 75 فیصد بچے ایک پیراگراف پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوا دو کروڑ سے زائد بچے بچیاں سکولوں سے باہر ہیں۔ عالمی بنک کی یہ رپورٹ تعلیمی افلاس کے حوالے سے ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونی چاہئے۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والی نسلوںکیلئے ہم کتنی بھیانک غفلت کا شکار ہیں۔ آج کی دنیا کا پہلا تقاضا ہی تعلیم ہے۔ ہمیں یہ مقولہ ازبر کر لینا چاہئے کہ جو ’’تعلیم میں پیچھے، وہ سب سے پیچھے‘‘۔ لگتا ہے کہ ہم کوئی سنہرا خواب دیکھ رہے ہیں اور اپنی آنکھیں کھولنے کو ہمارا جی نہیں چاہتا۔ ملکی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ قومی و صوبائی بجٹوں میں سب سے کم رقوم جس شعبہ کیلئے مختص کی گئیں وہ تعلیم ہے۔ موجودہ حکومت تو تعلیمی انقلاب و تبدیلی کا نعرہ لے کر میدان میں آئی ہے۔ یہ اس کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو کروڑوں بچے اور بچیاں سکولوں سے باہر ہیں ان کے سکول جانے کے انتظامات کئے جائیں، نئے سکول کھولے جائیں، تعلیم سستی اور عام کی جائے اور اس کے لئے ٹارگٹ مقرر کیا جائے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا انقلاب صرف کہنے سے نہیں کرنے سے آئے گا۔