پاک بھارت کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یورپی پارلیمنٹ کے 40اراکین نے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو خط لکھ کر فوری مذاکرات کی اپیل کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی کو لکھے خط پر یورپی پارلیمنٹ کے نائب صدر اور باقی اراکین کے دستخط موجود ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کے اراکین نے کہا ہے کہ کنٹرول لائن پر کشیدگی تشویشناک ہے اور کشمیریوں کو مذاکرات میں شامل کئے بغیر خطے میں دیرپا امن کا قیام ممکن نہیں ہو گا۔ یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان کی جانب سے گرفتار بھارتی پائلٹ کی رہائی کا خیر مقدم کیا اور پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے خطے کی بڑی طاقت چین نے بھی ثالثی پر رضا مندی کا اعلان کیا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ پاکستان عالمی ثالثی کا خیر مقدم کرتا ہے تو بھارت اس سے کیوں گریزاں ہے۔ نیشنل پیپلز کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کہا کہ چین اور پاکستان کے باہمی دیرینہ اور مستحکم تعلقات ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے چاہئیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ خطے کی صورت حال اور پاک بھارت کشیدگی سے متعلق ایرانی صدر سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کشمیریوں کی مسلسل حمائت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ خطے کے ایک اور اہم ملک سری لنکا کے صدر نے بھی پاک بھارت کشیدگی میں کمی کی خاطر کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ان ممالک کا پاک بھارت کشیدگی پر تشویش کا اظہار اس امر کی علامت ہے کہ عالمی برادری موجودہ صورت حال سے مطمئن نہیں اور بھارت کے طرز عمل میں تبدیلی کی خواہش مند ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو عالمی امن کی پرواہ ہے نہ عالمی تشویش کی فکر۔ بھارت میں مسلسل پاکستان مخالف پروپیگنڈہ جاری ہے۔ بی جے پی انتخابات میں اپنی کارکردگی کی بجائے پاک بھارت کشیدگی کو کیش کرانے کی فکر میں ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اپنا سیاسی عروج دیکھا۔ ہندو انتہا پسندوں کو عشروں کے بعد اقتدار میں آ کر مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر ظلم ڈھانے کی آزادی ملی تو بستیاں جلائی گئیں‘قتل عام ہوئے‘ گائے کے تقدس کے نام پر بے گناہوں کا خون بہایا گیا حالانکہ بھارت خود گائے کا گوشت برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے۔ آزادی سے قبل شدھی اور سنگھٹن کی جو تحریکیں چلائی گئی تھیں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے ویسے ہی اقدامات شروع کر دیے۔ بی جے پی نفرت اور تعصب کی آگ کو اتنا زیادہ بھڑکا چکی ہے کہ اب اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہو رہا ہو گا۔ خصوصاً جب انتخابی عمل کا آغاز ہونے والا ہے۔ ذاتی اقتدار اور طاقت کے لئے خطے کے دو ارب انسانوں کو خطرے میں ڈالنا انتہائی خود غرضانہ سوچ ہے۔ بھارت سے شدید نفرت کرنے والے لوگوں کی پاکستان میں کمی نہیں مگر ریاست پاکستان واضح کر چکی ہے کہ طاقت کے استعمال کا حق کسی فرد کے پاس نہیں بلکہ یہ صرف ریاست کا حق ہے۔ پاکستان نے نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تشدد چھوڑ کر انسانیت کی فلاح و بہبود کے کاموں کی طرف راغب کیا ہے۔ تشدد سے امن پسندی کی طرف سفر پاکستان کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ جس سے امریکہ‘ یورپی ممالک‘ چین‘ روس‘ وسط ایشیائی ریاستیں اور پاکستان کے دیگر ہمسایہ ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بھارت میں انتہا پسندوں کا طاقتور ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کا جمہوری اور انسانی حقوق کا نظام زوال پذیر ہے۔ سوا ایک ارب آبادی کا ملک اگر اس طرح کے مسائل کا شکار ہو تو اس کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کئے جا سکیں گے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ بین الاقوامی برادری نے پاک بھارت کشیدگی یا تنازع کشمیر کے حل کے لئے اپنی ثالثی کی خدمات پیش کی ہیں۔ ناروے کے سابق وزیر اعظم اور موجودہ وزیر اعظم گزشتہ تین ماہ میں پاکستان اور بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ ناروے کی وزیر اعظم نے بھارت کے دورے کے موقع پر تنازع کشمیر کے حل کی بات کی تھی۔ گزشتہ برس ترکی کے صدر رجب طیب اردوان بھارت گئے تو انہوں نے پاک بھارت مذاکرات کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ روس کے ساتھ بھارت کے دیرینہ دفاعی اور سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ چند ہفتے قبل روسی وزیر خارجہ نے ثالثی کی پیشکش کی تو ماسکو میں موجود بھارتی سفیر نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ اردن‘ سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک کی ایسی پیشکشوں کو بھارت یہ کہہ کر مسترد کرتا رہا ہے کہ یہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملہ ہے جسے کسی تیسرے فریق کی شرکت کے بغیر صرف دو طرفہ بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جب پاکستان دو طرفہ مذاکرات کی بات کرتا ہے تو بھارت دہشت گردی کے واقعات کا ملبہ پاکستان پر پھینک کر راہ فرار اختیارکرتا ہے۔ پاکستان نے کشیدہ صورت حال میں اب تک بڑا معقول رویہ اختیار کیا ہے جس کی عالمی سطح پر پذیرائی اور تحسین ہو رہی ہے۔ پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ بڑی فوج ہونے کے باوجود بھارت امن مخالف ملک کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ غیر ضروری اشتعال اور ہمسایہ ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کے باعث عالمی برادری اسے اپنے امور درست کرنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ موجودہ کشیدگی کو زیادہ دیر برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہو گا کہ دونوں ممالک اپنے فوجیوں اور گولہ بارود کو سرحدوں پر رکھیں گے۔ افواج کی نقل و حرکت سے کھیلوں کے میدان تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی انتقام انتقام کی بجائے خطے کے امن اور آبادی کی خوشحالی کو فوقیت دیں۔ حقیقی قائد تخریب کی بجائے تعمیر کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ بھارت کے لئے پاکستان کی پیشکش موجود ہے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھے پاکستان دو قدم آگے آنے کوتیار ہو گا۔