مدتوں میں اس معاملے کی گتھی سلجھانے میں لگا رہا کہ امریکہ کے کینڈی خاندان نے ایسا کیا کیا تھا کہ ان کا قصور ہی معاف ہونے میں نہیں آتا۔لاتعداد کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔سی آئی اے کی خفیہ کارروائیوں اور اس کی امریکی سیاست پر گرفت کی داستان تو زبان زدعام ہے۔ایک تصور یہ بھی عام ہے کہ کینڈی خاندان چونکہ مشہور خفیہ تنظیم فری میسنز کا رکن نہیں تھا‘جبکہ باقی تمام امریکی صدور اس تنظیم کے خاصے متحرک اراکین میں سے تھے، اس لئے کینڈی خاندان کے ایک ایک فرد کو چن چن کر قتل کیا گیا۔یہاں تک کہ مقتول امریکی صدر جان ایف کینڈی کا وہ بیٹا جو اس کی موت کے وقت انتہائی کمسن تھا اور اپنے باپ کے جنازے کے ساتھ کھڑے ہوئے جس کی تصویریں امریکیوں کو مدتوں رلاتی رہیں‘ اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔ لیکن سالوں بعد اس کتاب کے ایک فقرے نے وہ سارا عقدہ حل کر دیا۔ یہ کتاب آج سے ٹھیک ایک سو سال پہلے چار جلدوں میں شائع ہوئی اور 1920ء سے 1922ء تک دو سالوں میں یہ چاروں جلدیں مکمل ہوئیں۔اس کا مصنف امریکہ ہی نہیں‘ بلکہ سرمایہ داری تاریخ کا بہت بڑا نام سر ہنری فورڈہے۔ اس شخص کو موٹر کار کا موجد تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس شخص کا پوری دنیا پر ایک احسان ہے کہ اس نے موٹر کار‘جو ایک امیر آدمی کا کھلونا تھا‘ اسے اپنی پروڈکشن تکنیک کی خوبی سے عام آدمی تک پہنچا دیا۔ اپنے دور کے اہم لوگوں کی طرح ہنری فورڈ خالصتاً ایک کاروباری شخصیت نہیں رہا‘بلکہ وہ اردگرد کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتا تھا اور اسے امریکی معاشرت‘ سیاست اور معیشت پر تیزی سے سرایت کرنے والے یہودی غلبے کی وجہ سے شدید پریشانی لاحق تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہودی ایک دن امریکہ کو ایک ایسے عالمی قضیے میں الجھا دیں گے‘ جس کی دلدل سے نکلنا امریکہ کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا۔اس نے ان کے عزائم کے خلاف آواز اٹھانا شروع کی اور ’’مشی گن‘‘ (Michigan) ریاست کے مشہور اخبار ’’ڈیر بورن انڈی پینڈنٹ (The DEAR Boran independent) میں مضامین لکھنا شروع کر دئیے۔ان مضامین کے سلسلے کا عنوان تھا ’’عالمی یہودی:دنیا کے لئے مسئلہ‘‘ (The International Jcw: The Word,s Problem) ہنری فورڈ کے تمام مضامین انتہائی بے باک ار بے خوف ہوتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس دور کے امریکہ میں یہودیوں کے خلاف ایک ایسی فضا بن گئی کہ امریکہ میں اوڈلف ہٹلر کے فاشزم کی حمایت میں بولنا ایک فیشن بن گیا۔ امریکہ میں ہٹلر کی حمایت اور یہودیوں کی کار استانیوں سے نفرت کا یہی ماحول تھا کہ جس میں مقتول صدر جان ایف کینڈی کے باپ جوزف کینڈی کو برطانیہ میں امریکی سفیر بنا کر بھیجا گیا۔اس کے سفیر بنانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ہٹلر کے فاشسٹ نظریات کا حامی تھا اور یہودیوں کا سخت مخالف۔ یہودی لابی جان ایف کینڈی کی مقبولیت کی وجہ سے اسے اپنے دام میں تو لے آئی‘ اس کے رومن کیتھولک کٹر عیسائی ہونے پر انہیں اعتراض بھی بہت تھے لیکن ان کا اصل اعتراض یہ تھا کہ یہ شخص اپنے باپ کی تربیت کی وجہ سے اس طرح عالمی یہودیت اور صیہونیت (International Jewry & Zionism) کا گرویدہ نہیں ہے جیسے باقی امریکی صدور ہوتے ہیں۔جرم تو اس کے باپ کا بھی ناقابل معافی تھا لیکن جب بیٹے نے بھی پر پرزے نکالے اور آزادانہ سوچنا شروع کیا تو نہ صرف وہ مارا گیا بلکہ پورا خاندان عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ جدید صیہونیت اپنے دشنموں کا نہ صرف یہ کہ قصور معاف نہیں کرتی بلکہ انہیں عبرت کا نشان بناتی ہے۔صدام حسین اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد 1948ء میں جو عرب اسرائیل جنگ چھڑی اس جنگ میں یوں تو صدام حسین نے ایک نوجوان کمانڈر کی حیثیت سے حصہ لیا تھا لیکن بعد میں وہ عراقی سیاست پر آہستہ آہستہ چھاتا چلا گیا۔ اپنے مخصوص محل وقوع اور ایران میں امریکہ مخالف خمینی حکومت کی وجہ سے وہ امریکیوں کا لاڈلا بھی بن گیالیکن صہیونی اس کی طاق میں تھے۔انہیں جیسے ہی موقع ملا‘ پہلے انہوں نے اسے کویت جنگ میں الجھا کر اس پر امریکیوں سے حملہ کروایا اور اس کی پوری معیشت کو زمین بوس کر کے رکھ دیا۔پابندیاں اس قدر سخت تھیں کہ دس لاکھ عراقی بچے دوا نہ ملنے کی وجہ جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد جب گیارہ ستمبر 2001ء کا ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو عالمی سطح پر دو بڑے جھوٹ بولے گئے‘ ایک یہ کہ صدام کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں اور دوسرا یہ کہ عراق کا القاعدہ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔یوں صدام حسین کے عراق کو اس قدر برباد کیا گیا کہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ اور اتحادی افواج کے ہاتھوں شہید ہونیوالے مسلمانوں کی تعداد باقی تمام ممالک کی مشترکہ تعداد سے بھی زیادہ ہے۔اسے ذلت آمیز مقدمے سے گزارا گیا اور اس کی موت کو عبرت کی علامت بنانے کے لئے اس کی ویڈیو لیک کی گئی‘ اس کے بیٹوں کی لاشوں کی نمائش کی گئی۔وہ امریکہ جو فساد خلق کے ڈ رسے اسامہ بن لادن کی لاش کا تابوت بھی نہیں دکھاتا‘ صدام حسین سے اپنے انتقام کے ہر لمحے کو ہر خاص و عام تک پہنچاتا ہے۔ یہ امریکہ نہیں بلکہ وہ عالمی صہیونیت کی ذہنیت ہے جس کا تذکرہ بار بار اس 941صفحات پر مشتمل کتاب میں ملے گا۔ چار جلدوں میں چھپنے والی اس کتاب کو آہستہ آہستہ لائبریریوں اور کتب خانوں سے غائب کر دیا گیا۔لبرٹی بیل پبلشر نے 1976ء میں فورڈ خاندان کی فرمائش اور چند سرپھروں کے کہنے پر اسے دوبارہ شائع کیا اور خوف اتنا تھا کہ اس کی پرنٹ لائن پر ایڈیشن نہیں بلکہ دوبارہ چھاپنا(Reprint)لکھا گیا۔ اس ایڈیشن کو بھی آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ اس قدر اہم معلومات والی کتاب اتنی غیر مقبول کہ سو سالوں میں کسی کو ایک بار بھی دوبارہ منافع خوری کے لئے ہی چھاپنے کی جرات نہ ہو سکی۔گیارہ ستمبر کے چند ماہ بعد ملائشیا کے شہر کوالالمپور کے ایک پبلشرThe Other Press نے اسے چھاپ دیا جس کا ایک نسخہ اس عاجز کے ہاتھ چند سال قبل آیا۔ بارہا دوست پوچھتے ہیں۔ دوسرا نسخہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں‘ لیکن کوششیں بے سود کوئی صاحب اگر اس کا خوبصورت ترجمہ کر سکیں تو چھاپنے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔کتاب میں اسی 80 مضامین ہیں اور ہر مضمون اپنی نوعیت میں الگ ایک کتاب ہے۔ ہر مضمون ایک داستان بیان کرتا ہے کہ کیسے صہیونی اور عالمی یہودی‘ دنیا کی سیاست‘ معیشت میڈیا اور مالیاتی نظام پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں‘ ہنری فورڈ نے کہا تھا ایک دن ایسا آئے گا کہ امریکہ ایک قومی ریاست نہیں رہے گی۔ بلکہ عالمی یہودیوں اور صہیونیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ایک لمیٹڈ کمپنی بن کر رہ جائے گی یا اس کے دفاع کی مضبوط چھائونی۔