بیسویں صدی کے اختتام پر فن سپہ گری ایک جدید ترقی یافتہ فن کے قالب میں ڈھل چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے 5اگست کے غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدام کی بنا پر پاکستانی عوام بھارت سے انتقام لینے اور اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کرنے کے جذبے سے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ رسمی اعلان جنگ کے بغیر ہی پوری قوم میدان جنگ میں کود پڑنے کو تیار بیٹھی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی مظالم کے ابلاغ نے عوام کے جذبات کو مشتعل کر رکھا ہے۔ بیشتر افراد یہ پوچھتے ہیں کہ پاکستان نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ مجاہدین کو کشمیر میں داخل ہونے اور جہاد شروع کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ راقم کے ایک پڑھے لکھے دوست نے سوال کیا کہ اگر افواج پاکستان کشمیر کو بھی فتح نہیں کر سکتیں تو پھر چھ سات لاکھ فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اسی لیے کہتے ہیں کہ جذباتی رو میں بہہ کر کیا گیا فیصلہ درست نہیں ہوتا۔ راقم نے اس دوست پر واضح کیا کہ افواج پاکستان بمشکل پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کر سکتی ہیں اور ہمارے قومی مقاصد میں توسیع پسندی شامل نہیں۔ اگر ہم تمام افواج کو دفاعی مقامات سے ہٹا کر کشمیر میں داخل کرنے کی کوشش کریں تو دشمن آسانی سے ان مقامات پر قابض ہو سکتا ہے جہاں سے ہم نے اپنی فوج ہٹانے کی حماقت کی ہو۔ دوسری جانب کشمیر میں بھارت کی لگ بھگ 9لاکھ فوج متعین ہے لہٰذا وہاں بھی ہماری کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔ ایسی سوچ ہی سراسر خود کشی کے مترادف ہے۔ انگریز جنرل سرفرانسس ٹکر نے اپنی شہرہ آفاق کتاب An Approach to battleمیں دوسری جنگ عظیم میں ان حالات کا ذکر کیا ہے جب برطانیہ نے جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ تفصیل میں جائے بغیر یہ سمجھ لیجئے کہ جنگ میں کامیابی کے لیے جنگی ماحول کا سازگار ہونا اشد ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں جنگی ماحول کی وسعت عالمی ماحول تک پھیل چکی ہے۔ اگر عالمی قوتیں آپ کی پشت پر نہیں ہیں تو آپ کو ہر ممکن طریقے سے زک پہنچائی جائے گی اور تمام فیصلے آپ کے خلاف کیے جائیں گے۔ 1980ء میں امریکہ کے اشارے پر تمام عالمی برادری افغانستان میں روس کو شکست دینے کے لیے متحد ہو گئی۔ بوسنیا کے مسلمانوں کی سرب اور کروٹ فوجیوں کے ہاتھوں نسل کشی ہوتی رہی اور عالمی ضمیر سوتا رہا۔ مشرقی تیمور کی علیحدگی چند ماہ میں طے پا گئی لیکن فلسطین اور کشمیر کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ ایسے تمام فیصلے عالمی قوتوں کے اپنے مفاد میں کیے جاتے ہیں۔ 5اگست کے بھارتی اقدام کے بعد ’’مسلمہ امہ‘‘ میں سے صرف ترکی نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی۔ باقیوں نے دبے لفظوں میں باہمی مذاکرات کا مشورہ دیا جبکہ دو تین ممالک نے انتہائی بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور باقی ممالک نے کوئی پالیسی بیان دینے کے بجائے چپ سادھ لی۔ 1971ء میں بھارت نے ہمارا مشرقی بازو ہم سے علیحدہ کر دیا لیکن کوئی دوست ملک ہماری مدد کو نہ آیا حتیٰ کہ چین نے بھی خود کو صرف بیانات تک محدود رکھا اور امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے کی کہانی تو ہم سب کو معلوم ہے۔ گویا یہ سمجھ لیجیے کہ اپنی جنگ ہمیں خود ہی لڑنی ہو گی اور کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم تن تنہا یہ جنگ لڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو میرا جواب ہے کہ نہیں۔ کوئی بہت راسخ العقیدہ صاحب کہہ سکتے ہیں کہ ہم تنہا نہیں بلکہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو جناب اللہ تو کشمیریوں کے ساتھ بھی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں تا ہم کشمیری بھی جنگ آزادی کے لیے مادی اسباب کے محتاج ہیں۔ بیشک اللہ اسباب کا محتاج نہیں بلکہ وہ اسباب پیدا کرنے والا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ہمیں ہی کشمیریوں کے لیے وسیلہ بنا دے یا چین کے ذریعے اسباب فراہم کر دے۔ اس سلسلے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ فی الوقت ہمیں آئی ایم ایف کے قرضوں اور ایف اے ٹی ایف کی دھمکیوں کے ذریعے بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔ اس سانس گھٹنے والی کیفیت میں ہم بمشکل اپنی دفاعی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ہم یقینا کسی باقاعدہ جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ جہاں تک مجاہدین کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف متاثرہ فریق کو نہ صرف جنگ آزادی لڑنے کا حق ہے بلکہ اسے بیرونی فوجی امداد فراہم کرنا بھی بالکل قانونی اقدام ہے تا ہم امریکہ میں ٹوئین ٹاور پر حملے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس حملے کا سب سے زیادہ نقصان حریت پسندوں کو اور سب سے زیادہ فائدہ بھارت اور اسرائیل کو ہوا۔ موجودہ حالات میں اقوام متحدہ کے قوانین میں ترمیم کیے بغیر تمام حریت پسندوں کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور انہیں باہر سے امداد فراہم کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اب منطقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟ اس بظاہر مایوس کن صورتحال میں حال ہی میں ہمیں ایک غیر متوقع کامیابی ملی ہے کہ پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا۔ اگر مستقل ممبران میں سے کوئی ایک بھی اس کی مخالفت کرتا تو اجلاس منعقد ہی نہ ہو سکتا۔ لیکن اللہ نے یوں اسباب فراہم کیے کہ اس وقت امریکہ کی گوٹ افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے اور روس، بھارت کو دوبارہ اپنے پراثر دیکھنا چاہتا ہے لہٰذا ان دونوں نے اجلاس طلب کیے جانے پر اعتراض نہیں کیا۔ چین پہلے ہی ہمارے ساتھ تھا نیز اسے بھی لداخ کی آئینی اور قانونی حیثیت میں تبدیلی کا بھارتی اقدام منظور نہ تھا۔ اس طرح چون برس بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی منظر نامے پر اجاگر ہو گیا۔ اس اجلاس میں کوئی رسمی قرارداد منظور نہیں کی گئی تو اس کی بھی کچھ وجوہ ہیں۔ اگر اسی طور پر بھارت کی مذمت کی قرار داد پیش کی جاتی تو امریکہ، فرانس اور ممکنہ طور پر روس بھی اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالتے۔ قرارداد کا مسترد ہونا پاکستان کے مفادات کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوتا۔ لہٰذا مصلحت کے تحت ابہام سے کام لیتے ہوئے بین السطور دونوں فریقوں کو صبرو تحمل سے کام لینے، حالات کو مزید بگڑنے نہ دینے اور باہمی مذاکرات کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بھارت کی تمام ممکنہ کوششوں کے باوجود یہ اجلاس ہو کر رہا اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ پاکستان کی گھمبیر صورتحال کے پیش نظر تاحال حکومت کے تمام اقدامات درست سمت میں ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع کا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے متعلق بیان بچگانہ سوچ کا مظہر ہے۔ پاکستان نے کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں کیا کہ بھارت جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا۔ جنگ میں ہر حربہ روا ہے۔ اگر پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا تو یقینا ہم بھی پیچھے نہیں رہیں گے لیکن دعا کرنی چاہئے کہ ایسا موقع نہ ہی آئے تو بہتر ہے۔(جاری ہے)