امریکہ کی معاشی دہشتگردی کے جواب میں چین اور روس عالمی نظام کے ساتھ نئے عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل کے لئے کوشاں ہیں۔ امریکی معاشی جبر تسلط سے مجبور ایشیا اور افریقہ کے ممالک امریکہ سے سوال کرنے کی جسارت کرنے کے ساتھ نئے عالمی مالیاتی نظام میں شامل ہو رہے ہیں۔ دو برس میں ہی کل عالمی تجارت کے 10فیصدکا روس اور چین کے مشترکہ مالیاتی نظام SPFSاور CIPSپر منتقل ہونا ثبوت ہے۔آئندہ چند سال میں ہی امریکی سوئفٹ مالیاتی نظام عالمی تجارت کے قابل قدر حصے سے محروم ہو جائے گا۔ یہ وہ نئی تخلیقی منزل تھی جس پر پل بنانے کی کوشش عمران خان نے کی اور انجام بھگتا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے امریکہ پاکستان کواس’جرم ‘کی اور کیا سزا دے سکتا ہے اورپاکستان کے پاس بچنے کیلئے کیا آپشنز ہیں؟۔ اس سوال کا جواب بھی نیطشے نے بہت پہلے دے دیا تھا۔کمتر جسمانی غلامی کے دور کا خاتمہ تو اٹلانٹک معاہدے اور امریکہ کے لیبریشن آرڈر کے بعد ہی ہو گیا تھا۔لیبریشن آرڈر کے بعد طاقت کا محور برطانیہ سے امریکہ کی جانب جیسے جیسے منتقل ہونا شروع ہوا امریکہ نے کمزور ممالک کو اپنے زیر اثر رکھنے کے لئے مالیاتی زنجیروں میں جکڑنا شروع کیا۔حکم عدولی پر معاشی پابندیوں کے ذریعے ملکوں کی معیشت کو کنٹرول کیا۔50کی دھائی سے شروع ہونے والے پاک امریکہ تعلقات میں امریکی مالیاتی ہتھیار متعدد بار پاکستان پر استعمال بھی ہوا اور امریکہ معاشی لاٹھی سے پاکستان کو مطلوبہ سمت میں ہانکتا بھی جا تا رہا ہے۔دکھائی نہ دینے والی اس لاٹھی کی آہٹ سے ذہنی غلامی نے جنم لیا۔ اب رہا یہ سوال کہ پاکستان سوئفٹ مالیاتی نظام کے متبادل موجود ہونے کے باوجود روس سے 30 فیصد سستی گندم اور تیل خرید بھی سکتا ہے یا نہیں۔اس کا جواب عمران خان بھی جانتے تھے۔اگر بھارت سمیت دنیا کے درجن بھر ممالک روس سے تیل اور گیس خرید رہے ہیں تو یقیناً پاکستان بھی ایسا کر تو سکتا مگر دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اس کی قیمت بھی چکانی پڑے گی ۔ امریکہ اس کی قیمت ہر ملک کی معاشی آزادی کے مطابق طے کرتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان معاشی لحاظ سے اتنا خود مختار اور آزاد ہے کہ قیمت ادا کر سکے؟ پاکستان امریکی معاشی لاٹھی کی آہٹ کو نظرانداز کرتا تو یہ کہاں کہاں برستی؟ پہلے تو امریکہ کے زیر اثر مالیاتی ادارے جو پاکستان کو ماضی میں لئے گئے قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے دے رہے ہیں۔ نئے قرض دینے سے انکار کے ساتھ پرانے قرضوں کی شیڈول کے مطابق ادائیگی کا مطالبہ کرتے۔عمران خان جیسا’ ضدی‘ ممکن ہے ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے چین کی مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ، تب امریکہ نے خاموش تھوڑی ہی رہنا تھا۔پاکستان کی برآمدات جو 29 بلین ڈالر ہیں ان کا 80فیصد سے زائد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو برآمد کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی بھی تجارت کے حوالے سے فیصلوں میں آزاد ہوتے اور پاکستان کی برآمدات کی ناکہ بندی کی جاتی۔اول تو پاکستان کے لئے اتنی جلدی نئی منڈیاں تلاش کرنا ہی ممکن نہ ہوتا اگر عمران خان ایسا کر بھی لیتے تو یہ اقدام امریکہ کے مزید قہر کو دعوت دیتا۔عالمی مالیاتی قرضوں کی ادائیگی برآمدات کی بندش کے بعد پاکستان جو پہلے ہی سعودی عرب سے 6ماہ کے ادھار پر تیل خرید رہا ہے۔ روس سے 30فیصد سستے تیل کی ادائیگی کہاں سے کرتا؟ برآمدات کے بعد پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا سہارا پاکستانی تارکین وطن ہیں جو لگ بھگ 31بلین ڈالر ترسیلات زر بھجواتے ہیں پاکستان کے سعودی عرب کے بجائے روس سے سستا تیل خریدنے کے آزاد فیصلے کی قیمت مڈل ایسٹ میں کام کر رہے ہیں۔35لاکھ پاکستانیوں کو بے روزگار ہونے کی صورت میں ادا کرنا پڑتی۔اب سوال یہ ہے کہ امریکہ کے دبائو میں ہمارے برادر اسلامی ممالک پاکستان کی’’معاشی ناکہ بندی‘‘ کیوں کریں گے؟ تو ایسا کروانے کے لئے ہی تو امریکہ نے یمن کی چنگاری پر راکھ ڈال رکھی ہے۔ سعودی عرب پر یمن سے داغے جانے والے میزائلوں کو فضا میں امریکی ڈیفنس سسٹم تباہ کر رہا ہے امریکہ سوئچ آف کرنے کی دھمکی دے کر سعودی عرب سمیت مڈل ایسٹ کے تمام ممالک کو پاکستان کا’’ حقہ پانی‘‘ بند کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔آزاد فیصلوں کا شوق پاکستان کو 30بلین ڈالر کی ترسیلات زر اور 29بلین ڈالر کی برآمدات سے ہاتھ دھونے میں پڑتا۔ عمران خان کا ’’جنوں‘‘ اس کے باوجود بھی روس اور چین پاکستان کو سہارا دینے کے لئے ہاتھ پیر مارتا تو اول تو یہ کہ روس اور چین پاکستان کو ایسا مفت ڈنر دیتے ہی کیوں؟ اگر پاکستان کی سٹریٹجک اہمیت کے باعث ایسا کرنے کا سوچتے بھی تو اس کا بندوبست پہلے ہی امریکہ روس کو یوکرائن کی جنگ میں گھسیٹ کر اور تائیوان کا دفاع کرنے کا اعلان کر کے چین کو گھیر کر دے چکا ہے۔ چین تائیوان میں اور روس یوکرائن کے بعد فن لینڈ اور سویڈن پر نیٹو میں شامل ہونے کے پاداش میں حملہ کرتے ہیں تو یہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو گا ہی، ساتھ امریکہ بھارت کو کشمیر کا تنازع طاقت کے ذریعے حل کرنے پر اکسائے گا۔ اس عالمی منظر نامے کا ہم کسی کے غلام ہیں پوچھنے والے کے پاس کیا جواب ہے؟ ایک بات طے ہے کہ پاکستان اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد ایشیا کی صدی میں جو حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا فی الوقت ان کوششیں کو مزاحمت کا سامنا ضرور ہے۔ پاکستان کو عالمی فیصلہ کن موڑ پر فیصلے کرنے ہیں! پاکستان کا المیہ تو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں ایسے فیصلے سیاسی قیادت کرتی ہے جبکہ پاکستان کی سیاسی قیادت میں صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلے ریاستی ادارے کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ان فیصلوں پر تمام حالات کا ادراک رکھنے باوجود سوال پوچھ رہی ہے۔ تو حکمران اتحاد عوام کو یہ کہہ کر خاموش کروا رہا ہے کہ امریکہ کو ناراض کر کے پاکستان کی روزی روٹی بند کروانی ہے؟ جب سیاسی اشرافیہ کی ذہنی صلاحیت یہ ہو تو پھر فیصلے تو کسی نے کرنے ہی ہیں جو کر رہے ہیں اور انشاء اللہ پاکستان نئی عالمی سرد جنگ میں بھی کوئی راستہ تلاش کرلے گا مگر کاش پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی عقل پر ذہنی غلامی کا پتھر نہ پڑا ہوتا۔ فیصلوں میں سیاستدان بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتے شایداس وقت کے لئے شاعر نے کہا تھا: ہر ایک سنگِ میل ہے اب ننگِ رہگذر ہیں رہبروں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے