ڈمپسٹر کمیونٹی اپنے کام کے خدمت والے پہلو کے باعث اس پر فخر کرتی ہے

سپر مارکیٹوں ،اسٹوروں اورکمپنیوں کے بڑے کمرشل کوڑا دانوں سے قابلِ استعمال اشیاء ، خوراک اور قیمتی آلات کی بازیافت کا احوال

  

بہت بڑے سائز کےdumpster میں’غوطہ‘ لگاکر اندر سے غیر استعمال شدہ چیزیں نکالنے کا کام کرنے والوں کوdumpster divers کا نام دیا گیا ہے

 

کچرے کے محققینGarbologistsکمرشل کچرے پر ریسرچ کر کے جدید زندگی کے رجحانات کا پتا لگاتے ہیں

شبیر سومرو

 

سندھی میں ایک کہاوت ہے:’’ککھ ہیٹھاں لکھ‘‘

اس کا آزاد ترجمہ یوں ہوسکتا ہے کہ سنگریزے ٹٹولتے سونا مل جائے!

آج کی ’مہذب‘ دنیا میں اسی طرح کی ایک نئی ’صنعت‘ بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔یہ ہے کمرشل کچرادانوں سے قابلِ استعمال اور قیمتی اشیاء کی بازیافت اور ان کی فروخت سے لاکھوں ڈالر کی کمائی۔ اس کے علاوہ ملٹائی نیشنل کمپنیوں کا شکریہ کہ وہ کنٹینرز جیسے بڑے بڑے کُوڑے دانوں میںٹنوں کے حساب سے ایسی غیر استعمال شدہ اشیائے خوردو نوش بھی پھینک رہی ہیں،جن سے لاکھوں غریب بھوکوں کا پیٹ بھرتاہے۔اس سے خدمتِ خلق کا ایک نیا شعبہ وجود میں آنے لگا ہے ،جس کے رضاکار اِن کمپنیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ایسی اشیاء جن کے استعمال کی میعاد آنے والے چند دنوں میںختم ہونے والی ہو، انھیںبیدردی سے کوڑے دانوں میںپھینکنے کے بجائے،ان کے حوالے کردیا کریں تا کہ وہ یہ چیزیں بھوکے اور ضرورت مند لوگوں کو بروقت پہنچا دیا کریں۔

اس طرح کے کنٹینرز، صنعتی، تجارتی نوعیت کے عظیم الجثہ کوڑے دانوں سے کام کی چیزیں تلاش کر کے، ان کو مناسب طور پر استعمال کرنے، فروخت کر کے ڈالر کھرے کرنے یاپھر مستحق لوگوںتک پہنچانے کی سرگرمی کو امریکی انگریزی میںdumpster divingکہا جاتا ہے۔ یہ لفظی ترکیب چند سال پہلے آکسفورڈ ڈکشنری میں بھی شامل کی گئی ہے، جب کہ بول چال میں اس کا پہلی بار استعمال 1980ء میں ہوا تھا۔برطانوی انگریزی میں اس مشق کے لیے’’Skipping‘‘ کا لفظ استعمال ہورہا ہے۔جہاں تک لفظ dumpsterکا تعلق ہے تو یہ اس سے ملتے جلتے نام کی ایک کمپنی Dempster Brothersسے مستعار لیا گیا ہے۔ یہ کمپنی تقریباً ایک صدی سے کمرشل کوڑے دان بنا کر بیچ رہی ہے جو بہت بڑے سائز کے ہوتے ہیںاور ان کا تجارتی نامdumpsterرکھا گیا تھا جو آج بھی چل رہا ہے۔ان کوڑے دانوں میں’غوطہ‘ لگاکر یعنی Diveکر کے جو لوگ اندر سے نئی ،غیر استعمال شدہ چیزیں نکالنے کا کام کرتے ہیں، انھیںdumpster divers کہا جاتا ہے۔اب ان کی ایک الگ ’کمیونٹی‘بن چکی ہے جو اپنے کام کے خدمت والے پہلو کے باعث اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔یہ کام اب ایک مروجہ طریقہِ کار کے تحت یعنی منّظم طور پر ہورہا ہے۔جس سے ہرdumpster diver بہت اچھی کمائی بھی کرتا ہے۔یعنی وہ جو ہمارے ہاں کہا جاتا ہے: انعام بھی، ثواب بھی!

بیشتر افراد یہ کام انفرادی سطح پر کر رہے ہیں لیکن گروہی صورت میں بھی کئی لوگوں نے اس کے لیے فلاحی تنظیمیں،این جی اوز اور پریشر گروپس قائم کرلیے ہیں۔ ان گروپوں کے ارکان کمپنیوں ،اداروں اور کارخانوںکے ذمہ داران سے ملاقاتیں کر کے، انھیں قائل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں کہ وہ اپنا غیر مطلوبہ مال، اس طرح سے کوڑے دانوں میں نہ پھنکوائیں کہ وہ استعمال کے قابل ہی نہ رہے۔۔۔ بلکہ ایسی چیزیں جو انھیں لازماًپھینکنا یاdiscardکرنا ہوتی ہیں،وہ اس قسم کی فلاحی تنظیموں یا افراد کو دے دیا کریں تا کہ ان اشیاء کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جاسکے۔

 ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کام وہ لوگ بھی کر رہے ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے اور وہ کسی دنیاوی چیز کے محتاج نہیں۔مگر وہ اپنے وقت کا بہترین استعمال کرتے ہوئےdumpster divingکرتے ہیں اور حاصل شدہ اشیاء کی درجہ بندی کر کے، انھیں مستحقین تک پہنچاتے ہیں۔ماحولیات کو بہتر بنانے کے خواہش مند لوگ بھی اس کام میں شامل ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے شہر، علاقے اور محلے کو کوڑے سے صاف رکھنے کے لیے ڈمپسٹر ڈائیونگ کرتے رہتے ہیں اور ’برآمدات‘کو ’ری سائیکل‘ کر لیتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کی روزافزوں ترقی کے باعث امیر ملکوں کے لوگ اپنے پرانے موبائل فون، کمپیوٹرز، مائیکرو ویوز، ٹی وی سیٹس،ریفریجریٹرز اور دیگر سامان پھینک دیتے ہیں۔ یہ چیزیں اٹھالے جانے والے لوگ انھیں صاف کرکے اور اگر ضروری ہو تو ان کی مرمت کر کے آگے بیچ دیتے ہیں۔ 

 بڑے اسٹوروں اور سپر مارکیٹوں میںنیا اسٹاک آجانے پر و ہ پرانی پیک خوراک نکال پھینکی جاتی ہے، جس کی ایکسپائری مدّت گزرنے میں مہینہ دس دن رہ گئے ہوں۔دکاندار ایسی چیزیں فروخت کرنے سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ اگر یہ خوراک کھا کر کوئی انسان بیمار پڑ گیا تو لینے کے دینے پڑجائیں گے اور مقدمات بھگتنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں کاروباری ساکھ الگ سے خراب ہوگی۔اس ڈر سے سپر مارکیٹس والے اور گروسری اسٹورز بھی کوئی رسک نہیں لیتے۔اگر لاکھوں کا سامان بھی ہو تو اسے بغیر ہچکچاہٹ کے ڈمپسٹر بِنز یا کنٹینرز (یعنی ڈمپسٹرز)میں پھنکوا دیتے ہیں۔ اور اس سے بہت سوں کا بھلا ہورہا ہے۔اب ایسی discarded خوراک کو استعمال کرنے کے لیے برطانیا اور دوسرے ملکوں میں کھانے پکانے کی خصوصی کتابیں شایع ہو رہی ہیں کہ اگر ڈمپسٹرز سے کوئی پرانی مگر اچھی حالت میں ملنے والی پیک خوراک نکالی جائے تو اسے کیسے پکایا یابنایا جائے تاکہ صحت خراب ہونے کا مسئلہ نہ ہو۔ ایک فلاحی تنظیم Food, Not Bombs کے رضاکار ایسے مقامات سے خوراک جمع کر کے غریب آبادیوں میں روزانہ دو وقت تقسیم کر آتے ہیں۔

ڈمپنگ کے اس شعبے سے طلبہ کو بھی بہت فائدہ ہورہا ہے۔ انھیں اپنے تعلیمی پروجیکٹس کے لیے ان جگہوں سے ضرورت کا سامان، ٹیکنالوجیکل ڈیوائسز، کام کے پارٹس اور پرزے مفت مل جاتے ہیں۔چوں کہ طالب علم کسی بھی ملک کے ہوں، ان کو محدود سا جیب خرچ ملتا ہے اور وہ اکثر و بیشتر ’فقرے‘ ہی رہتے ہیں، اس لیے ڈمپسٹر ڈائیونگ ان کے لیے نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنے بلکہ اضافی کمائی کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔  

اس کام کے حساب سے محققین کا ایک نیا گروہ بھی پیدا ہوچکا ہے، جنھیںGarbologistsکہا جا تا ہے۔ یہ ماہرین کمرشل کچرے پر ریسرچ کر کے جدید زندگی کے رجحانات کا پتا لگاتے ہیں۔ ان کی ریسرچ کی روشنی میںدیگر سماجی علوم کے ماہرین ضروری نتائج اخذ کرتے ہیںاور معاشرتی عوامل پر کام کرنے والے تھنک ٹینکس بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ڈمپسٹر ڈائیونگ کے نقصانات

ایسی جگہوں پر جو سامان، چیزیں ہوتی ہیں، انھیں اٹھانے یا استعمال کرنے کے خطرات بھی ہوتے ہیں۔ کچرے اور کوڑے کے وہاں مسلسل جمع رہنے سے خطرناک جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں جو پھینکی جانے والی اشیاء کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ اس لیے ڈمپسٹر ڈائیونگ کرنے والوں کے موذی امراض یاخطرناک biohazardousمواد سے متاثر ہونے کا امکان ہمیشہ رہتاہے۔اس کے علاوہ ڈمپنگ سائٹس پر شیشے کے ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑے اور تیز دھار دھاتی چیزیں انھیںزخمی کرنے کا موجب بھی بنتی ہیں۔اس لیے سمجھدار افراد کام شروع کرنے سے پہلے دستانے پہننے اور ماسک استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ سرگرمی غیر محتاط افراد کی غفلت کی وجہ سے سماج اور متعلقہ علاقے کے شہریوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے کہ وہ کنٹینرز یا کوڑے دانوں سے اپنے کام کی اشیاء تلاش کرنے کے چکر میں اردگرد کچرا پھیلا دیتے ہیں اور واپس جانے سے پہلے اس گرے ہوئے سامان یا غیر مطلوبہ اشیاء کو اٹھا کر بِن میں واپس نہیں ڈالتے۔ جس سے صفائی ستھرائی اور صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔کچرے والے یہ ’غوطہ خور‘ دوسری بے احتیاطوں کے باعث کبھی کبھی جان سے بھی گزرجاتے ہیں۔ کوڑا پھینکنے یا اٹھا لے جانے والی گاڑیاں انھیں کچل بھی دیتی ہیں۔جیسے جنوری 2012ء میںلا جولا کے علاقے میں ڈمپسٹر ڈائیونگ کرتے ہوئے ایک سوئس نژاد امریکی شہری الفانسو دی بوربن کچرے کے ٹرک کے نیچے آکر مارا گیا تھا۔وہ ایک کوڑے دان سے الیکٹرونک چیزیں چن رہا تھا کہ ریورس آنے والے ٹرک کے نیچے آگیا۔

اس کے علاوہ اس سرگرمی سے اپنی الیکٹرونک چیزیں پھینک جانے والوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جیسے کسی نے اپنا ڈیٹا اُڑائے بغیر سیل فون پھینک دیا۔ وہ سیٹ جس نے اٹھایا، اسے مالک کا ڈیٹا ہاتھ لگ گیا تو وہ اس سے کوئی بھی ناجائز فائدہ اٹھا سکتا ہے۔کچرے دانوں سے ملنے والی نجی دستاویزات اٹھانا اور ان سے کوئی بھی فائدہ لینا، پرائیویسی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے، جس پر قانونی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔یوٹیلٹی بلوں کی کاپیاں جو ثابت حالت میں کچرے میں پھینک دی جاتی ہیں، وہ مالکان کی شناخت چوری کرنے ، انھیں مالی ،اخلاقی یا دوسری نوعیت کا نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہیں۔

کُوڑے یا غیر مطلوبہ اشیاء پھینکنے کے کام کے لیے اکثر کنٹینرز نجی کمپنیوں اور عام لوگوں کے رکھے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے بیشتر ملکوں کے قانون کے مطابق ان جگہوں سے بلااجازت چیزیں، خوراک یا دوسرا سامان لینا چوری کے زمرے میں آتا ہے اور اس طرح کی ’’وارداتوں‘‘کے خلاف بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں دی جاسکتی ہیں۔اکتوبر 2013ء میں شمالی لندن میںتین افراد کو گرفتار کر کے ان پر1824 Vagrancy Actتحت چوری کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک سپر مارکیٹ کی حدود میں رکھے ہوئے ڈمپسٹرز میں گھس کر وہاں پھینکے ہوئے ٹماٹر اور دوسری سبزی اٹھائی تھی جو اس مارکیٹ کی انتظامیہ نے زائد المیعاد ہوجانے پر پھینک دی تھی۔جب اس مقدمے کی خبریںمیڈیا میںآئیں توعوام نے بے حد احتجاج کیا، جس سے مجبور ہو کر سپر مارکیٹ کی انتظامیہ نے مقدمہ واپس لے لیاتھا۔

ترقی یافتہ ملکوں میں40سے50فیصد تیار خوراک اضافی یا غیر ضروری قرار دے کر ضایع کردی جاتی ہے۔یہ خوراک ویسٹ بِنز میں پھینک دی جاتی ہے، جہاں سے بھوکے یا ضرورت مند لوگ خود ہی آکر لے جاتے ہیں یا ڈمپسٹر ڈائیورز جمع کر کے ان تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔اب کچھ ایسے ادارے قائم ہوگئے ہیں جو براہِ راست سپر مارکیٹوں سے ان کی ایسی خوراک جمع کرکے اسے سلّم ایریاز میںرہنے والے ان غریبوں یا بے گھر لوگوں تک پہنچاتے ہیں جو دو وقت کا کھانا خرید کر نہیں کھاسکتے۔

امریکا، کینیڈا اور یورپ میں اب سپرمارکیٹوں کے ساتھ ساتھ بیکریاں، گروسری اسٹورز اور ریستوراں بھی بھلائی کے اس کام میں شامل ہونے لگے ہیں اوروہاں بچ جانے والی یا پھینکی جانے والی خوراک صاف ستھرے انداز میں پیک کر کے رکھ دی جاتی ہے اور فلاحی تنظیموں کے نمائندے کے آنے پر اسے پیش کر دی جاتی ہے۔

پرانے رسالے،کتابیں اور اخبارات بھی اسی طرح تلف کرنا ضروری قرار دیا جاتا ہے،جیسے خوراک یا دیگر چیزیں ایکسپائری تاریخ آنے پر ضایع کی جاتی ہیں ۔مگر اس سے پہلے ان کے سرِورق الگ کر کے اپنے ریکارڈ میں رکھے جاتے ہیں تاکہ پبلشروں کو پیش کر کے، نقصان کا کلیم داخل کیا جاسکے۔ جیسے ہمارے ہاں سول ایجنٹ حضرات اور اخبارات کے سرکیولیشن ڈپارٹمنٹ کے درمیان اخبار کی  ’’واپسی‘‘ کے معاملات پیشگی طے شدہ ہوتے ہیں۔

تعلیمی سال کے خاتمے پر امیر ملکوں کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قائم بک اسٹالز اور اسٹیشنری والے شعبے، بچ جانے والا وہ سامان نکال پھینکتے ہیں، جو سال بھر میں فروخت نہیں ہوسکا تھاتاکہ نئے اسٹاک کے لیے جگہ خالی کی جاسکے۔ اس سامان میںکاپیاں، کتابیں، رجسٹرز، پریکٹیکل جرنلز،پین، پنسلز،جیومیٹری باکسز اور اسی طرح کا دوسرا سامان شامل ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ سامان خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی ادویہ یا خوراک کے آئٹمز کی طرح اس کی کوئی expiry dateہوتی ہے مگر وہ جو کہتے ہیں کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔۔۔ اگر یہ ملک ایسی فضول خرچی یا سخاوت کا مظاہرہ نہ کریں تو غریب اور ترقی پذیر ملکوں کے بچوں کو یہ چیزیں سستی کیسے ملیں گی؟کیوں کہ اب تو ہمارے جیسے ملکوں میں بھی یہ سامان لنڈا کی طرح ’اردو بازاروں‘ میں ریڑھوں پر ملنے لگا ہے۔ حتیٰ کہ پینسلیں آپ کو فی کلوگرام کے حساب سے بھی مل سکتی ہیں!۔

 ای ویسٹ کی چھٹائی

ان کوڑے دانوں میں جو الیکٹرنک آلات پھینکے جاتے ہیں، وہ ان لوگوں کے حصے میں آتے ہیں، جن کو انگریزی میں early birdsکہا جاتا ہے، یعنی جو سویرے سویرے اور رات گئے ان جگہوں کی تلاشی لیتے رہتے ہیں۔ ان آلات کے مالکان اس لیے انھیں ترک کرتے ہیں کہ ان کی جگہ نئے ماڈل خرید لیتے ہیں یا پھر انھیں اپ گریڈ کرانے، خراب ہوجانے کی صورت میں مرّمت کرانے پر بے تحاشا خرچہ ہوتا ہے ،اس لیے بجائے اس کے تھوڑے زیادہ پیسے ڈال کر نئی چیز لے لی جاتی ہے۔ان چیزوں میں زیادہ تر کمپیوٹرز ،لیپ ٹاپس ، ٹیبلیٹس اور وڈیو گیمز ہوتی ہیں۔یہ چیزیں وہ فلاحی ادارے بھی نہیں اٹھاتے جو یہاں سے چیزیں بٹور کر مستحقین تک پہنچاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی بھی استعمال شدہ یا پرانا کمپیوٹر استعمال نہیں کرنا چاہتا، مبادہ اس میں وائرس اور دیگر خرابیاںموجود ہوں جو ڈیٹا وغیرہ نہ اڑادیں۔

 ڈمپسٹر ڈائیونگ کے موضوع پر کئی کتابیں بھی تصنیف ہوچکی ہیں ،جن میں سے دو کتب The Art and Science of Dumpster DivingاورDumpster Diving: The Advanced Course: How to Turn Other People's Trash into Money, Publicity, and Power مصنف John Hoffmanنے تحریر کی ہیں۔اس فیلڈ میں درجن بھر جریدے بھی شایع ہوتے ہیں۔بی بی سی ون چینل پر 1996ء سے ایک مقبول شو Changing Roomsچلتا ہے، جس میں ناظرین کوڈمپسٹر ڈائیونگ  سے حاصل ہونے والے سامان سے گھر کی تزئین و آرائش کرنے کے طریقے اور ٹوٹکے سجھائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اس موضوع پر کئی ڈاکیومینٹریز اور فیچر فلمیں بھی بنتی آرہی ہیں، جن میں سے ایک غنائیہ دستاویزی فلمSurfing the Wasteکو بہت پذیرائی ملی ہے۔

قیمتی نوادرات کی دریافت

گذشتہ برس سالسبری برطانیا میں رکھے ہوئے ایک ڈمپسٹر سے ایک شخص کو چینی کی ٹوٹی ہوئی مگر بہت خوبصورت ایک کیتلی ملی، جو اس نے 20ڈالر میں کسی اور کو بیچ دی۔ خریدار نے اس کے ٹکڑوں کو جوڑ کر نوادرات کے ایک نیلام گھر کے ماہرین کو دکھائی۔ ماہرین کی ریسرچ رپورٹ آنے کے بعد مذکورہ نیلام گھر نے وہ ٹوٹی ہوئی کیتلی 8لاکھ ڈالر میں خرید لی کیوں کہ واقعی نادر اور تاریخی چیز تھی، جس کا تعلق امریکی سول وار کے دور سے تھا۔   

امریکا وہ ملک ہے ،جہاں 4کروڑ شہریوں کو روزانہ فقط ایک ہی وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ان میںایک کروڑ 20لاکھ بچے ہیں۔اور یہی ملک ہے،جس کی دکانیں، ریستوراں اورسپر مارکیٹس کی جانب سے روزانہ 40سے50فیصد خوراک مختلف وجوہات کے تحت پھینک دی جاتی ہے!۔

لکھ پتی ڈمپسٹر ڈائیور میٹ میلون

میٹ میلون ٹیکساس امریکا کے آسٹن شہر کی ایک کمپنی میں سیکیورٹی اسپیشلسٹ  کے طور پر ایک لاکھ ڈالر سے زائد تنخواہ لیتے ہیںمگر پھر بھی وہ پارٹ ٹائم ڈمپسٹر ڈائیور ہیں۔ اس کام سے انھیں ڈھائی لاکھ ڈالر سالانہ کی اضافی آمدنی ہوتی ہے۔میٹ، ڈمپسٹرز سے صرف الیکٹرونک آئٹمز تلاش کرتے ہیں جنھیں وہ گھر لے جا کر ضروری صفائی اور مرّمت کر کے بیچ دیتے ہیں۔ پچھلے سال ایک ایپل اسٹور کے ڈمپسٹر کین سے انھیں ایک کارٹن ملا تھا، جس میں آئی پیڈ اور آئی فون بھرے ہوئے تھے۔یہ سب کے سب بہترین اور ’چالو‘حالت میںتھے، مگر پچھلے سال کے ماڈلز تھے، اس لیے کمپنی نے انھیں کوڑے دان میں ڈال دیا تھا۔ان کی فروخت سے میٹ کو کئی لاکھ ڈالر کی کمائی ہوئی تھی۔

گل بہائو: ڈمپسٹر ڈائیونگ

 کا مقامی ورژن

کراچی میں کئی سال سے ایک تنظیم ’گل بہائو‘کام کر رہی ہے، جس کا نعرہ ہے کہ ’کچرا دو سونا لو‘۔ان کا ایک اور موٹو’صفائی میں کمائی‘ بھی ہے۔ تنظیم کی سربراہ خاتون نرگس لطیف نے کچرے سے چنوائی ہوئی چیزوں سے کئی کارآمد پروجیکٹس تیار کیے ہیں۔ جیسے پلاسٹک کے کچرے سے تعمیراتی بلاکس بنوا کر، ان سے کمرے اور چھپر بنواتی ہیں جو ماحولیات کے لحاظ سے بہت کامیاب بتائے جاتے ہیں۔ وہ اس کام کے لیے مطلوبہ کچرے کی ایک خاص مقدار لانے والوںکو اس کے عیوض چھوٹے چھوٹے طلائی بسکٹس دیتی ہیں جو کہ منفرد معاوضہ ہے۔گل بہائو کے ’صفائی کمائی بنک‘ کوکچرے کو ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے لگانے کی عمدہ مثال قرار دی جاسکتی ہے۔

کمپیوٹر اور آئی ٹی میں ڈمپسٹر ڈائیونگ

ڈمپسٹر ڈائیونگ بظاہرصرف طبعی صورت میں کسی ڈسٹ بن، کنٹینر یا کوڑے دان سے کام کی اشیاء چھانٹنے کا نام ہے مگر اب یہ اصطلاح آئی ٹی کی فیلڈ میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔کسی فرد، ادارے یا کمپنی کے کمپیوٹر نیٹ ورک میں بلا اجازت گھس کر، ان کے سسٹم میں موجود ری سائیکل بِن میں پھینکی گئی فائلوں، فولڈروں اور دیگر ڈیٹا سے کمپنی کے راز، پاس ورڈز اور دیگر معلومات حاصل کر کے، اس کے ذریعے مذکورہ کمپنی، اس کے ذمہ داران یا اسٹاف ممبرز کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کو بھی ’ڈمپسٹر ڈائیونگ‘ کہا جارہا ہے۔اس قسم کی ڈجیٹل نقب زنی سے بچنے کے لیے اب کمپنیاںروزانہ بنیادوں پر سسٹم کے ری سائیکل بِن میں موجود ڈیٹا فائلز اور دیگر مواد کو ڈیلیٹ کرنے لگی ہیں۔ اس کے علاوہ سسٹمز کے پاس ورڈز آئے دن تبدیل کرتے رہنے کی احتیاط بھی کی جاتی ہے۔کمپنیوں میں مواد کی ہارڈ کاپیاں رکھنے کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور جو معلومات اور موادکاغذی صورت میں موجود ہوتا ہے،وہ استعمال کرنے کے بعد مشین کے ذریعے تلف کرنے کے بعد ،کاغذ کی ان کترنوں کو جلا بھی دیاجاتا ہے۔کیوں کہ اب ایسے سافٹ ویئر بھی بن چکے ہیں جو کاغذ کی باریک کترنوں کوبھی ورچوئل شکل میں جوڑ کر، ان پر لکھی ہوئی یا چھپی ہوئی تحریر دکھا دیتے ہیں۔ایسی محتاط کمپنیاں یا لوگ اپنی ہارڈ ڈرائیوز،اسٹوریج ڈیوائسز یا سیل فون بیچنے، پھینکنے یا کسی کو عطیہ کرنے سے پہلے انھیں فارمیٹ کردیتے ہیں مگریہ احتیاط بھی کام نہیں آتی کیوں کہ آئی ٹی کا کوئی بھی ماہر ایسی ڈیوائسز سے ڈیٹا ری کور کرسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب یہ چیزیں پھینکنے سے پہلے انھیں تلف کرنا بھی ضروری سمجھا جانے لگا ہے۔