چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک میں موجود طبی سہولتوں کی مخدوش صورت حال کو ریاست کی ناکامی قرار دیا ہے۔ راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بجا طور پر کہا کہ پاکستان میں صرف وہی شخص اچھی طبی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جو مالدار اور بااثر ہو۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنی کوششوں کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ انہوں نے نظام صحت کی بہتری کے لئے بھر پور کوشش کی۔ ججوں سے چندہ لے کر ہسپتالوں کو دیا مگر ملک میں بہت کچھ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جناب میاں ثاقب نثار نے لاہور رجسٹری میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی عدم دستیابی پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے محکمہ صحت کو ہدائت کی کہ وینٹی لیٹرز کا فوری انتظام کیا جائے۔ ملک بھر میں صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جدید ریاست کا تصور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ صحت کا شعبہ کئی مسائل کا شکار ہے۔ ان مسائل کی وجہ بدانتظامی اور انتظامی نااہلی ہے۔ ایک عرصے سے ہمارے ہاں جمہوری ادارے صحت کے شعبے کی ترقی کا مطلب فقط کچھ نئی اسامیوں پر بھرتی سمجھتے رہے ہیں۔ حکومتوں نے صحت کے شعبہ کی تعلیم‘ سہولیات‘ زندگی بچانے والی ٹیکنالوجی اور ادویات کی تیاری پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوںنے حادثات اور ہنگامی امداد کا ادارہ 1122قائم کیا۔ لاہور کے جوبلی ٹائون میں کئی ایکڑ پر مشتمل ڈینٹل ہسپتال کی تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی۔ اس عمارت کا کام ابھی مکمل نہیں ہو سکا تھا کہ پرویز الٰہی کی حکومت اپنی مدت مکمل کر کے رخصت ہوئی۔ لاہور کے ڈینٹل ہسپتال کی طرح وزیر آباد میں ایک کارڈیالوجی سنٹر بنایا گیا۔ اس کی عمارت مکمل تھی صرف آلات کی فراہمی اور طبی عملے کی تعیناتی باقی تھی۔ ان کے بعد پنجاب میں دس سال تک شہباز شریف وزیر اعلیٰ رہے۔ انہوں نے ان منصوبوں کو صرف اس وجہ سے فعال نہ کیا کہ ان کی تکمیل میں پرویز الٰہی کا نام آتا تھا۔ یوں مریض سرکاری خزانے سے تعمیر دو اہم طبی سہولتوں سے اس وجہ سے فائدہ نہ اٹھا سکے کہ ن لیگ کی حکومت ایسا نہیں چاہتی تھی۔ حال ہی میں بلوچستان کے متعلق ایک رپورٹ 92نیوز میں شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں صوبے کے مختلف علاقوں میں قحط سالی اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث مقامی آبادی کی حالت زار کو پیش کیا گیا۔ یہ رپورٹ پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ پاکستان کے حکمران رہنے والے اس درجہ سفاک اور نالائق لوگ تھے کہ انہوں نے دور دراز علاقوں میں آباد شہریوں کی صحت اور غذا کی ضروریات کا ذرا احساس نہ کیا۔ پاکستان کے مجموعی رقبے کے چالیس فیصد پر محیط صوبے بلوچستان کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے مگر اس کے پاس ایک بھی دل کے امراض کا ہسپتال نہیں۔ جو لوگ مالی استطاعت رکھتے ہیں وہ اسلام آباد اور کراچی میں جا کر علاج کروا لیتے ہیں باقی محرومیوں کے مارے اپنے وجود سے چمٹے امراض سمیت قبر میں جا سوتے ہیں۔ کراچی اور حیدر آباد کو نکال کر پورے سندھ میں کوئی قابل ذکر ہسپتال نہیں ملتا۔ برسوں سے تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں پڑھ رہے ہیں۔ رواں سال کے دوران اس علاقے میں 600سے زائد ننھے بچے مر چکے ہیں مگر کئی عشروں سے سندھ پر حکمرانی کرنے والی جماعت اسے معمول کے واقعات کہہ رہی ہے۔ خیبر پختونخواہ کے ہسپتالوں کا دورہ کرنے کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ کے ہسپتالوں میں موجود سہولیات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو بہتری لانے کی ہدائت کی تھی۔ چند ہفتے قبل جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ذاتی دلچسپی کے باعث نجی شعبے میں کام کرنے والے بہت سے مہنگے ہسپتالوں نے مریضوں سے وصول کی جانے والی فیسیں کم کرنے کا اعلان کیا۔ جناب میاں ثاقب نثار متعدد بار لاہور میں اربوں روپے سے تعمیر ہونے والے ملک کے پہلے امراض جگر و گردہ کے ہسپتال کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار فرما چکے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر مایوسی ظاہر کی تھی کہ کئی ماہ سے کام شروع کرنے والے اس ہسپتال میں اب تک جگر کی پیوند کاری کا ایک بھی آپریشن نہیں ہو سکا۔ چھوٹے قصبوں اور دور دراز علاقوں میں طبی سہولتوں کی بات تو بڑی ہے یہاں حالت یہ ہے کہ کراچی‘ لاہور‘ راولپنڈی اور فیصل آباد جیسے بڑی آبادی والے شہروں میں مناسب طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث شہری پریشان ہیں۔ معزز عدالت عظمیٰ نے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کمی کا نوٹس لے کر نئے وینٹی لیٹرز حاصل کرنے کی تاکید کی ہے۔ ہم جو ہر معاملے میں بھارت سے اپنا تقابل کرتے ہیں ہمیں یہ حقائق ملحوظ خاطر رکھنے چاہئیں کہ لاہور جنرل ہسپتال میں سب سے زیادہ ایسے مریض اور حادثات کا شکار زخمی لائے جاتے ہیں جنہیں وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ مصنوعی تنفس میں مددگار ایسی دو درجن مشینیں اتنے بڑے ہسپتال میں کام کر رہی ہیں جبکہ دہلی میں پانچ سو بیڈ کا ایک ہسپتال موجود ہے جہاں ہر بیڈ کے ساتھ ایک وینٹی لیٹر موجود ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے صحت‘ تعلیم‘ صاف پانی اور انصاف کی فراہمی عام کرنے کے وعدے کئے تھے۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت بااختیار ہے۔ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کیلئے بہت سے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے مگر عام شہری کو ابھی تک صحت کی جدید اور موثر سہولیات نہیں مل پا رہیں۔ سابق حکمرانوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور عوام نے انہیں مسترد کر دیا۔ موجودہ حکومت سے عوامی توقعات زیادہ ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس شعبے کی کارکردگی بہتر بنانے کی جلد کوئی شکل سامنے آ جائے گی۔