اخبارات کے کونے میں ایک خبر تھی : سزائے موت کے ملزم کو 14 سال بعد سپریم کورٹ نے بری کر دیا۔ خوشی کی بات ہے ایک شخص کو انصاف ملا لیکن سوال یہ ہے ان 14 سالوں کا حساب وہ کس سے جا کر مانگے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ،جہاں ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے اور قرآن و سنت سے منافی کوئی قانون بن ہی نہیں سکتا ، کوئی ہے جو اس سوال کا جواب دے؟بڑے لوگوں کے مسائل زیر بحث آ جائیں تو پورا سماج دانشور بن کر ایران توران کی خبریں لانے لگتا ہے لیکن عام آدمی کی زندگی کبھی یہاں موضوع بحث ہی نہیں بن سکی۔ وہ ایک گیلا کاغذ ہے۔ نہ وہ اس قابل ہے کہ اس پر کچھ لکھا جا سکے نہ وہ اس قابل ہے کہ اسے جلایا جا سکے۔ خالد چودھری نے ایک کالم لکھاتھا۔غالبا گیارہ سال پہلے ۔اس کالم کو پڑھ کر میں جس کرب سے گزرا تھا اس کی اذیت میں آج بھی نہیں بھولا۔ ضیاء الحق دور میں خالد چودھری پر مقدمہ قائم ہوا اور سالوں جیل میں رہنا پڑا۔برسوں بعد خالد چودھری نے لکھا کہ میں مقدمے سے تو بری ہو گیا لیکن جس روز مجھے پکڑا گیا اس روز میری بیٹی ایک ننھا سا وجود تھا، جب میں رہا ہوا وہ سیانی ہو چکی تھی۔میں نے اس کے ساتھ کھیلنا تھا ، میں نے اسے بولنا سکھانا تھا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چلنا سکھانا تھا ، وہ چلتے چلتے گرتی تو میں نے بڑھ کر اسے تھامنا بھی تھا ، رات گئے وہ کہتی بابا مجھے پیپسی کی بھوک لگی ہے تو میں نے اس کے لیے پیپسی بھی لانا تھی، اس نے میرے سینے پر بیٹھ کر شرارتیں بھی کرنا تھیں، میرے ان سالوں کا حساب کون دے گا؟ مجھے رہائی تو دے دی گئی مجھے میری بیٹی کا وہ بچپنا کون لا دے گا؟قانونی موشگافیوں میں جن کی عمریں بیت گئیں کیا ان کے پاس اس سادہ سے سوال کا کوئی جواب ہے؟ ایک آدمی پر مقدمہ بنتا ہے ، اسے ماتحت عدالت سزائے موت سناتی ہے ، ہائی کورٹ بھی اس سزا کو برقرار رکھتی ہے ، سپریم کورٹ میں معلوم ہوتا ہے بندہ تو بے گناہ تھا۔اس آدمی کی جوانی جیل میں برباد ہو گئی۔ اس کے روزگار کے امکانات تباہ ہو گئے ۔ کاروبار تھا تو برباد ہو گیا۔ ملازمت تھی تو ختم ہو گئی۔ اس کی پوری فیملی نے یہ عذاب جھیلا، اس کے بچوں کی تربیت میں کمی رہ گئی ، بچوں کی تعلیم کا نقصان ہوا۔ بچے باپ سے ، بیوی شوہر سے اور باپ اپنی اولاد اور شریک حیات سے دور رہا۔ نظام قانون کے اس پہلو کو آخر کب موضوع بحث بنایا جائے گا۔ غلطی کا امکان بھی انسانی سماج میں موجود رہتا ہے لیکن کیا ریاست اتنا بھی نہیں کر سکتی کہ زندگی کے چودہ پندرہ سال جیل میں گزار کر بعد میں رہا ہو جانے والے قیدیوں کی بحالی کا کوئی منصوبہ ہی بنا لے۔ان کی زندگی کے قیمتی سال تو واپس نہیں کیے جا سکتے لیکن کیا یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ انہیں ہر سال کے عوض کچھ رقم دے دی جائے تا کہ وہ پھر سے زندگی شروع کرنا چاہیں تو انہیں کچھ آسانی ہو جائے۔ جیل اصلاحات پر ہم ایک روز بات کر رہے تھے اور جناب فیاض احمد جندران نے بہت قیمتی نکتہ اٹھایا ۔ ان کا سوال یہ تھا کہ جن قیدیوں کا مقدمہ چل رہا ہے اور ابھی انہیں سزا نہیں ہوئی انہیں جیل میں رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟فیاض جندران کا نام اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کے لئے منظور کیا جا چکا۔امید نہیں ، یقین بھی ہے کہ یہ سوال ان کے ہمراہ رہے گا اور ان کی فکر اور صلاحیتوں سے نظام قانون کے ان پہلوئوں کی اصلاح ہو سکے گی۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نظام کی اصلاح کا خواب شرمندہ تعبیر تب ہی ہو گا جب پارلیمان اپنی قانون سازی میں ان چیزوں کوموضوع بنائے گی اور عام آدمی کے مسائل پر قانون سازی کرنا اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھے گی۔پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس پر اوسطا چار سو لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔یہ خرچ یہ غریب قوم مراد سعید اور مشاہد اللہ خان کی شعلہ بیانی سننے کے لیے نہیں کرتی۔ پارلیمان کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں پر بھی توجہ فرما لینی چاہیے۔ جیلوں میں اس وقت گنجائش سے 57 فیصد زیادہ قیدی ہیں ۔ ان قیدیوں کا دو تہائی ان ملزمان پر مشتمل ہے جن کے مقدمات ابھی چل رہے ہیں اور انہیں ابھی سزا نہیں ہوئی۔گویا اگر انہیں جیل سے نکال دیا جائے تو جیلوں میں سے 66 فیصد قیدی کم ہو جائیں، جیلوں کا ماحول بہتر ہو جائے ، جیلوں کے اخراجات میں کمی ہو جائے، قیدیوں کے طعام اور انہیں جیل سے عدالت اور عدالت سے جیل لانے کے اخراجات بھی کم ہو جائیں۔معمولی معمولی جرائم پر لوگ جیلوں میں پڑے ہیں اور عدالتیں ان کی ضمانت کی درخواستوں کے انبار سننے میں لگی ہیں ۔اگر حکومت ایک قانون بنا دے کہ سنگین جرائم کے علاوہ باقی جرائم میں سزا ہونے تک کسی کو جیل میں نہیں ڈالا جائے گا تو کیانظام قانون میں انقلابی تبدیلی نہ آ جائے؟ کبھی آپ نے غور کیا ہمارے ہاں جھوٹے مقدمات کیوں قائم کروائے جاتے ہیں؟اس لیے کہ لوگوں کو معلوم ہوتا ہے بھلے مقدمے میں سزا ہو یا نہ ہو یہ چند دن جیل تو جائے گا اور معاشرے میں ذلیل تو ہو گا۔اگر سزا سے پہلے جیل جانے کا سلسلہ ہی ختم کر دیا جائے تو نہ صرف جھوٹے مقدمات کی تعداد میں حیران کن حد تک کمی آ سکتی ہے بلکہ پولیس گردی کا زور بھی توڑا جا سکتا ہے۔ تھانہ کچہری کی سیاست کا بنیادی ظلم ہی یہی ہے کہ مخالف پر جیسا تیسا مقدمہ بنوائو اور جیل بھجوا دو۔ اب جائے اپنے جسمانی ریمانڈ کی بھول بھلیوں سے نکلے اور پھر اپنی ضمانتیں کرواتا پھرے ۔یہ سلسلہ آخر ختم کیوں نہیں ہو سکتا؟ کبھی کسی نے سوچا کہ کسی کو چودہ سال جیل میں رکھ کر جب اسے بری کیا جاتا ہے تو اس کے احساسات کیا ہوتے ہوں گے؟بڑے بڑے کیسز پر سارا دن ہمارے ہاں بحث ہوتی ہے، خصوصی نشریات ہوتی ہیں اور سوشل میڈیا پر داد شجاعت دی جاتی ہے لیکن عام آدمی کے مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا ۔کیوں؟