مغربی میڈیا شور مچا رہا ہے کہ روسی افواج کسی وقت بھی یوکرائن پر حملہ کرسکتی ہیں۔اگلے روز امریکی صدر نے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ یوکرائن سے نکل جائیں کیونکہ کسی وقت بھی زیادہ گڑ بڑ ہوسکتی ہے۔ممکنہ جنگ کا شور مچاتے ہوئے امریکہ اور برطانیہ نے یوکرائن سے اپنا سفارتی عملہ نکال لیا ہے۔ امریکہ اور یورپ رُوس کو وِلن بنا کر پیش کررہے ہیں کہ وہ جارحیت کا ارتکاب کرکے اپنے چھوٹے ہمسایہ ملک یوکرائن کو ہڑپ کرنا چاہتا ہیے۔ حالانکہ حقیقت میں یوکرائن کا بحران امریکہ اور مغربی یورپ کا پیدا کردہ ہے۔ جب سوویت یونین نے مشرقی جرمنی اورمغربی جرمنی کے اتحاد کو تسلیم کیا تھا تو اس وقت مغربی یورپ کے رہنماؤں نے ماسکو کو یقین دلایا تھا کہ نیٹوکے فوجی اتحاد کو مشرق کی طرف توسیع نہیں دی جائے گی لیکن اِس زبانی یقین دہانی پر عمل نہیں کیا گیا۔ روس کی معاشی کمزوری اور مغرب پر انحصار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیٹومیں مشرقی یورپ کے متعدد ممالک کو شامل کرلیا گیا۔ اب یوکرائن کو بھی اس فوجی اتحاد میں شامل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے تھے۔صرف یہی نہیں گزشتہ بیس بائیس برسوں میں یورپی یونین میں کئی ایسے ممالک شامل کرلیے گئے جو کمیونسٹ روس کے زمانے میں اس کنفیڈریشن نما اتحاد میں شامل نہیں تھے۔کریملن کے لیے یورپی یونین کی مسلسل توسیع ہمیشہ تشویش کا باعث رہی ہے کیونکہ مغربی یورپ اور روس کے درمیان جنگ و جدل کی طویل تاریخ ہے۔ ماضی میں فرانس(نیپولین) اور جرمنی (ہٹلر)دونوں رُوس پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ مغربی یورپ کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ معدنی ذخائر (تیل‘گیس) اور وسیع رقبہ سے مالا مال روس کو اپنا طفیلی ملک بنایا جائے۔ چین کے عروج کے بعد اس خواہش میں ایک نئی جہت شامل ہوگئی ہے کہ رُوس مغربی اتحاد میں شریک ہوجائے تو چین کو آسانی سے قابو کیا جاسکتا ہے۔ انہی سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے 2014 میں امریکہ اور یورپ نے یوکرائن میںماسکو کی دوست حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد فراہم کی کیونکہ یوکرائن کی سرحد روس سے متصل ہے ۔ اس ملک کے مغرب میں انتہائی اہمیت کا حامل بحیرۂ اسود ہے جو آگے جا کر ایک تنگ سمندری راستے کے ذریعے بحیرہ روم سے جُڑ جاتا ہے ۔ اسی راستے رُوس کی سارا سال تجارت ہوتی ہے اور اسکی افواج بحیرۂ روم کے اطراف میں واقع جنوبی یورپ اور شمالی افریقہ میں اپنے تزویراتی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ یوکرائن میں امریکہ نواز‘ رُوس مخالف حکومت بنوائی گئی۔ یوکرائن کے شمال میں واقع ملک بیلا رُوس میں بھی ایسی حکومت لانے کی کوشش کی گئی جو ماسکو کی بجائے مغرب نواز ہو۔ چند ہفتے پہلے مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وسط ایشیا میں واقع قازقستان میں شورش برپا کروائی ۔ کریملن نے اپنی افواج وہاں بھیج کر فساد پر قابو پانے میں قازقستان کی مدد کی۔ امریکہ اور مغربی یورپ چاروں طرف سے رُوس پر حملہ آورہیں۔ خود رُوس کے اندر امریکہ نواز گروہوںاور نیوالنی ایسے لیڈروں کے ذریعے صدر پیوٹن کے خلاف تحریک چلوانے کی کوشش کی گئی۔ تاکہ ماسکو میں قوم پرست رہنما کے طور پر ایسی حکومت بن جائے جو امریکہ اور مغربی یورپ کے بلاک میں شامل ہو اور چین کا مقابلہ کرے۔ اسکے بعد ماسکو نے فیصلہ کیا کہ نیٹو کو مزید اسکی سرحدوں کے قریب آنے نہیں دیا جائے گا۔مشرقی یوکرائن جو رُوس سے متصل ہے اس میں بیشتر آبادی رُوسی النسل ہے۔ مغربی یوکرائن میں پولش نسل کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ مشرقی یوکرائن کے کئی علاقوں میں خود مختاری کی تحریک چل رہی ہے ۔ یہ علاقے دارلحکومت کیئف کی مرکزی حکومت سے اقتدار کی عدم مرکزیت کا مطالبہ کررہے ہیں۔ماسکو نے ان علاقوں کے لوگوں کے مطالبہ پر وہاں محدود پیمانے پر اپنی افواج تعینات کی ہوئی ہیں۔ یوکرائن کی مرکزی حکومت نے مشرقی علاقے کے لوگوں سے دو بارانہیں خودمختاری دینے کے معاہدے کیے جنہیں منسک معاہدے کہا جاتا ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا۔ بلکہ امریکہ اور یورپ نے یوکرائن کو جدید ترین اسلحہ سے مسلح کرنا شروع کردیا۔ اس عمل نے ماسکو میں خطرہ کی گھنٹیاں بجانی شروع کیں اور اس نے اپنی ایک لاکھ فوج یوکرائن کی سرحد پر لگا دی۔ صدر پیوٹن اور امریکی صدر بائیڈن کی دو بار سربراہی ملاقات ہوچکی ہے لیکن یہ بحران حل ہونے میں نہیں آرہا۔ اب پیوٹن بجا طور پر چاہتے ہیں کہ یورپ کی سلامتی کے پورے نقشہ کی نئے سرے سے تعریف کی جائے کہ کس طاقت کی کیا حدود ہیں۔ یوکرائن تو اس سارے معاملہ کا صرف ایک پہلو ہے۔ دسمبر میں ماسکو نے امریکہ اور نیٹو کے سامنے روس کی سلامتی سے متعلق جامع مطالبات سامنے رکھے۔ اسی لیے یوکرائن کے بحران پر بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی کہ صدر پیوٹن جامع ضمانتیں مانگ رہے ہیں جبکہ امریکہ اور یورپ یہ گارنٹی دینے کو تیار نہیں۔گزشتہ ہفتہ فرانس کے صدر میخواں ماسکو گئے جہاں ان کی صدر پیوٹن سے سربراہی ملاقات ہوئی۔ اس اہم بات چیت کے بعد میخواں کا کہنا تھا کہ ’یہ واضح ہے کہ آج رُوس کا جیو پولیٹیکل ہدف یوکرائن نہیں ہے بلکہ وہ ان قواعد کی وضاحت چاہتا ہے کہ رُوس اور یورپی یونین‘ نیٹوساتھ ساتھ کیسے رہیں گے۔ـ مطلب‘ دونوں کی حدود کیا ہیں۔ وہ سرخ لکیر کہاں ہے جسے دونوں عبور نہیں کریں گے۔رُوس کا یوکرائن کی سرحد پر فوجیں جمع کرنے کا مقصدصرف اس پر حملہ کرنا نہیں بلکہ امریکہ اور مغربی یورپ پر دباؤ ڈالنا ہے کہ روس کے ساتھ دفاع اور سلامتی کے امور پر جامع معاہدہ کریں۔اس لیے یوکرائن پر ہونے والے مذاکرات میں اسی وقت تک حقیقی پیش رفت ہوگی جب یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ ان کا مقصد رُوس اور مغربی یورپ کے مجموعی تعلقات کی نوعیت کا تعین کرنا ہے۔اس صورتحال میں امریکہ کا روس کے بارے میں رویہ زیادہ سخت گیر ہے۔ اس نے یوکرائن کو بیس کروڑ ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا ہے۔ جبکہ یورپ کے ممالک جر منی اور فرانس ماسکو کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ فی الحال یوکرائن پر امریکہ اور روس کے درمیان اعصاب کی جنگ ہورہی ہے کہ کون پہلے آنکھ جھپکتا ہے۔ جوں جوں بحران بڑھ رہا ہے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔