بہت دل گرفتگی کے ساتھ میں یہ چند سطریں لکھ رہا ہوں۔ آج ایک قلم اور خاموش ہو گیا۔ عبدالقادر حسن بھی رخصت ہو گئے۔ وہ بلاشبہ جدید اردو کالم نویسی کے بانی تصور کئے جاتے ہیں۔ ان سے پہلے ایک خاص طرح سے چٹکیاں لیتے ہوئے مزاح کے ساتھ کالم لکھے جاتے تھے اور یہ کام ہمارے بڑے بڑے ادیبوں نے انجام دیا مگر کالم نویسی کو حالات حاضرہ کے تناظر میں نیا روپ دینے کا کام عبدالقادر حسن سے شروع ہوا۔ وہ بلاشبہ اس قبیلے کے سردار تھے۔ یہی نہیں وہ صحافیوں کی اس کھیپ سے تھے جن کا احترام اہل سیاست اور اہل دانش میں خلوص دل سے پایا جاتا تھا۔ ایک جیتی جاگتی تاریخ تھے۔ گھٹنوں کے درد کی وجہ سے وہ آخری عمر میں محفلوں میں جانے سے اجتناب کرتے تھے۔ تاہم اس سے پہلے مجلس آرائی ان کا شیوہ تھا۔ میں جب کراچی سے واپس لاہور آیا تو دل میں یہ خواہش لے کر آیا کہ فلاں پنج ستارہ ہوٹل میں عبدالقادر حسن سے ملاقات رہے گی۔ وہ مجلس اجڑ چکی تھی اور زندہ دلان لاہور کا یہ گروہ دوسرے ہوٹل میں اٹھ چکا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ محفل بھی ختم ہو گئی اور میں اپنے اس شوق کو دل ہی میں لیے بیٹھا رہا۔ ان سے نصف صدی کا تعلق تھا۔ کئی واقعات اور باتیں یاد آتی ہیں۔ صرف اہل سیاست ہی نہیں ان کے تعلقات اس شہر کے ہر شعبے کے ممتاز افراد سے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ سرفراز شاہ صاحب کی محفلوں میں بھی تشریف لاتے۔ جب چلنے پھرنے میں مشکلیں پیدا ہوئیں تو شاہ صاحب انہیں ملنے چلے گئے۔ وہ کس کس کو عزیز نہ تھے۔ وہ گاہے گاہے اپنی داستان حیات لکھتے رہے۔ ایک نظریاتی صحافی تھے‘ ایک زمانے میں تو جماعت اسلامی کا حصہ بھی رہے۔ پھر صحافت میں اپنی غیر جانبداری قائم رکھنے یا شاید اس خیال سے کہ وہ یہ ذمہ داریاں نبھا نہیں سکتے‘ خود ہی کنارہ کش ہو گئے۔ مگر جماعت اور اسلام کی محبت ان کے دل سے کبھی نہ گئی۔ شروع میں وہ جماعت اسلامی کی دارالعربیہ میں مسعود عالم ندوی کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ یہ وہ عالم بے بدل تھا جس نے اپنی عربی دانی اور علم و فضل سے جماعت کو ابتدائی دنوں میں عالم عرب سے متعارف کرایا۔ انہوں نے عربی ان سے سیکھی۔ قدرت نے ان کی پرورش بھی عجیب انداز میں کی۔ وہ ہفت روزہ لیل و نہار کے عملہ ادارت میں شامل ہو گئے جہاں فیض احمد فیض اور سبط حسن جیسے لوگوں کے زیرتربیت رہے۔ ان لوگوں کی پیشہ وارانہ مہارت کی انہوں نے خاص طور پر ہمیشہ ہی تحسین کی ہے۔ یہاں نظریات اس تعریف کی راہ میں کبھی حائل نہ ہوئے۔ ان کے قلم میں اتنی جان تھی کہ بڑے بڑے برج الٹ دیتے تھے۔ مجھے ہمیشہ ایک بات یاد رہتی ہے کہ میں نے ممتاز افسانہ نگار انتظار حسین کو صرف دوبار کسی سے دبتے دیکھا ہے۔ یہ میں اس بات کو ٹھیک طرح بیان نہیں کر پا رہا۔ یوں سمجھئے ایک انداز معکوس میں کسی کی عظمتوںکا اعتراف کرتے سنا ہے۔ ایک بار افسانے کے میدان میں جب خالدہ اصغر (حسین) کے تذکرے نے زور پکڑا اور گویا اس خیال نے جنم لیا کہ اردو افسانہ اب انتظار حسین کے بعد کئی منزلیں طے کر گیا ہے تو اس وقت لگا کہ انتظار حسین سوچ میں پڑ گئے ہیں۔ انور سجاد کو تو انہوں نے کچھ نہ سمجھا تھا مگر یہ بی بی بہت آگے بڑھتی دکھائی دی۔ پھر ایک لمبے عرصے تک ان کے ہاں خاموشی رہی تو ایک دن انتظار حسین نے پوچھا کہ بھئی یہ بی بی کہاں رہ گئی‘ لوگ بہت ڈرایا کرتے تھے۔ اور دوسری بار کالم نگاری میں عبدالقادر حسن کا ذکر بھی انہوں نے ایسے ہی کیا۔ انتظار بھی کالم لکھتے تھے مگر اور ڈھب کا اور بلاشبہ وہ اس کے بادشاہ تھے وہ مگر بزم کے آدمی تھے رزم کے نہ تھے۔ پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو عبدالقادر حسن کے جہادی کالموں کو بڑی پذیرائی ملی۔ چند برس بعد ٹی ہائوس ہی میں ایک دن انتظار حسین نے عبدالقادر حسن کا تذکرہ ویسے ہی کیا جیسے انہوں نے خالدہ اصغر کا کیا تھا۔ انتظار حسین بہت بڑے لکھاری تھے۔ ان کا یہ اعتراف کہ رزم کے میدان میں عبدالقادر حسن بازی لے گیا بلکہ قوم کی آواز بن کر اس طرح گونجا کہ اس کے علاوہ اور کوئی آواز سنائی ہی نہیں دیتی تھی۔ شوکت اسلام کے بعد جو نظریاتی جنگ شروع ہوتی عبدالقادر حسن اس کے صف اول کے مجاہد تھے۔ ایک لمبا عرصہ وہ مری طرح نوائے وقت سے وابستہ رہے۔ پھر جنگ اور آخر میں ایکسپریس کے ہو گئے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے آخری لمحوں تک وفاداری نبھائی۔ وہ بولنے پر اتنی قدرت نہ رکھتے تھے تاہم جب ان کے اخبار نے اپنے ٹی وی چینل پر قلم کار کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تو عباس اطہر کے ساتھ انہوں نے بھی خوب رنگ جمایا۔ شاید ہارون الرشید بھی ساتھ تھے اس وقت تک یہ لوگ ٹی وی کی شخصیات نہیں سمجھی جاتی تھیں مگر ایک ایسا پروگرام وجود میں آیا جس کے بعد میں بہت سے لوگوں نے نقالی کی بھی کوشش کی۔ درمیان میں عبدالقادر حسن اپنا جریدہ بھی نکالتے رہے مگر ان کا اصل میدان کالم نویسی تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بھی ثانوی تھا۔ اصل میں وہ ایک رپورٹر تھے اور اپنے وقت میں اس میدان کے بادشاہ تھے۔ ان دنوں کا لاہور ایسے ہی نابغہ روزگار خبرنگاروں سے مزین تھا۔ ان میں کم تھے جو زبان و بیان پر ایسی قدرت رکھتے ہوں‘ چنانچہ اس سے کالم نویسی کی ایک ایسی وضع ایجاد ہوئی جس کے نقش قدم پر چل کر ہی بعد والوں نے منزل پائی۔ مجھے یاد ہے جب یہ خبر پھیلی کہ 77ء کی تحریک کے عروج پر بھٹو صاحب مولانا مودودی سے ملنے اچھرے آئے ہیں تو اس وقت عبدالقادر حسن اور یہ خاکسار صرف دو ہی لوگ تھے یا شاید ایک آدھ اور جنہیں مولانا جان محمد عباسی کے ساتھ مولانا تک رسائی حاصل ہوئی۔ ابھی فضائوںمیں بھٹو کے جانے کا اثر باقی تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن سید مودودی کے حضور ہم سانس روکے بیٹھے تھے اور مولانا بڑے آرام سے اور اعتماد سے ساری بات سمجھا رہے تھے۔ باہر نکلے تو یوں لگتا تھا کہ قادر حسن نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ ایک ایسی کیفیت تھی جسے میں عمر بھر نہیں بھلا سکوں گا۔ بس ایسے ہی لکھا جارہا ہوں۔ وہ ہمارے سینئر ساتھیوں میں تھے اور ہمیشہ راہ نمائی کرتے تھے۔ داد دینے میں بھی کبھی بخل نہ کرتے تھے۔ مجھے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ان کی ایک نماز جنازہ لاہور میں بھی ادا ہوئی ہے۔ ان سے فرزند اطہر حسن کو بھی بعض اوقات میں نے دیکھا کہ وہ اہم جگہوں پر ان کی نمائندگی کے لیے موجود تھے۔ جہاں وہ خود چل کر نہ جا سکتے‘ انہیں بھجوا دیتے۔ وہ بھی ایک فرماں بردار بیٹے کی طرح یہ فریضہ ادا کرتے تھے۔ جانے میرے ذہن میں کیا کیا گھوم رہا ہے۔ آخری دنوں میں ان سے ملنا کم رہا مگر رابطہ ضرور رہا۔ وہ انشاء اب بھی رہے گا‘ ہمیشہ رہے گا۔