مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف اور وفاقی وزراء نے انتخابات التوا کیس پر فل کورٹ بنچ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ون مین شو تباہی کا باعث بنے گا‘ سماعت کرنے والے موجودہ بنچ کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے؟ لیگی قائد نے مزید کہا کہ ان ہی بینچوں کے فیصلوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا۔یہ مرضی کے فیصلے ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ قوم عہد کر لے کہ ایسا نہیں ہونے دینا‘‘ مسلم لیگ ن متعدد بار حکومت میں رہی ہے۔نواز شریف خودتین بار وزیر اعظم رہے ہیں۔اس جماعت اور اس کے قائد کی جانب سے ایک آئینی ادارے کا فیصلہ نہ ماننے کا عندیہ سیاسی اور جمہوری حوالے سے نا درست ہے۔ پاکستان کا ہر شہری عدالتی فیصلوں کو ماننے کا پابند ہے۔ جو فیصلہ تسلیم نہیں کرتے وہ نافذ العمل آئین پاکستان کے انکاری کہلا سکتے ہیں۔ دنیا کی وہ ریاستیں جہاں پریشر گروپ اور سیاسی جماعتیں عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگتی ہیں وہاں نظام انصاف واضح طور پر تقسیم ہو جاتا ہے۔نظام کا ایک حصہ عام آدمی کے مفادات‘ آئین اور قانون کی بالادستی کا حامی ہوتا ہے۔ اور دوسرا حصہ پریشر گروپوں اور طاقتور شخصیات کے زیر اثر آ جاتا ہے۔محروم عوام کا احساس محرومی اس سے شدید تر ہو جاتا ہے۔امریکہ میں عدلیہ کو زیر اثر لانے کی کوششوں پر قانونی حلقوں نے قابل قدر تحقیق کر رکھی ہے۔ ’’ڈائجسٹبل نوٹس‘‘ کے نام سے ایک آن لائن ادارہ اپنی رپورٹ میں بتاتا ہے کہ عدالت کسی معاملے میں اگر ایک اہم پہلو کو نظر انداز کر رہی ہو تو وہ متعلقہ شعبے میں دلچسپی رکھنے والے گروپوں کو موقع دیتی ہے کہ وہ اپنا موقف تحریری رپورٹ کی شکل میں عدالت کے سامنے رکھیں۔ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے بین الاقوامی ماہرین کچھ تجاویز پیش کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ عدلیہ کی ساکھ ججوں کی تعیناتی اور ان کی ترقی کے طریقہ کار پر منحصر ہوتی ہے۔عدلیہ کس حد تک آزاد ہے اس کا اندازہ جوڈیشل کونسلوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔عدلیہ کی آزادی ججوں کی مدت ملازمت اور ملازمت کی شرائط پر ہے۔عدلیہ کی آزادی کے لئے آخری تجویز یہ دی جاتی ہے کہ عدلیہ اپنے مالی اور انتظامی امور میں خود مختار ہو۔پاکستانی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی اور ان کے پس منظر پر ہمیشہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔اعلیٰ عدلیہ میں ایسے ججز کی کمی رہی ہے جو سول جج بھرتی ہوئے اور پھر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے جج بنا دیے گئے۔زیادہ تر ایسے وکلاء کو جج بنایا جاتا رہا ہے جنہیں کسی حکومت یا سیاسی جماعت کی حمایت حاصل تھی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سیاست عدلیہ کے لگے بندھے اصول و ضابطے کی جگہ اہم ہو جاتی اور بحران کا سبب بنتی۔ پاکستان میں پریشر گروپوں اور سیاسی مداخلت کے باوجود عدلیہ نے عوام کو ریلیف پہنچانے کی کوشش کی ہے۔2007ء میں جنرل پرویز مشرف کو آخر کار چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ اس وقت عوام اپنا مفاد آزاد عدلیہ کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔یہ صورتحال ایک اور شکل کے تجربے کا حصہ ہے۔ میاں نواز شریف کی ایک سابق حکومت نے ججوں میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی۔یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ جسٹس سعیدالزماں صدیقی کی قیادت میں اکثریتی ججوں نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ جمہوری آئین مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات تقسیم کرتا ہے۔ کسی تنازع‘ آئین کی تشریح یا استحقاق کا معاملہ طے کرنے کا حتمی اختیار عدلیہ کو حاصل ہے۔عدلیہ نے ایک فیصلے میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا۔یہ فیصلہ قبول کیا گیا۔عجب معاملہ یہ ہے کہ عدالت جب نواز شر یف کو نااہل قرار دیتی ہے اور ان کی جماعت کے افراد کے خلاف مقدمات کی سماعت کرتی ہے تو عدالتوں کے دائرہ کار‘ ججوں کی ذات اور عدالتی طریقہ کار کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسی نوع کے تنازع میں مسلم لیگ ن کے کئی رہنما سپریم کورٹ پر حملے کے جرم میں نااہل قرار پا چکے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے ساتھی معزز جج حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات ان کی تحلیل کے 90روز کے اندر کرا دے۔عدالت عظمیٰ واضح آئینی شرط کو پورا کرنے کا کہہ رہی ہے۔جواب میں حکومت کبھی فنڈز کی کمی کا بہانہ کرتی ہے‘ کبھی کہتی ہے کہ بدامنی اور دہشت گردی کی صورت حال بدترین ہے۔اس لئے انتخابات نہیں ہو سکتے‘ کبھی یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ وزارت دفاع امن و امان برقرار رکھنے کے لئے فورس فراہم نہیں کر سکتی۔ ممکن ہے حکومت کے یہ جواز درست ہوں لیکن اچھے بھلے چلتے ملک میں جب سب کچھ ہو رہا ہو۔ وزراء کی فوج کے خرچ عوامی خزانے سے پورے ہو رہے ہوں تو پھر ان کی بتائی گئی وجوہات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا عدلیہ کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی ریاست ہے۔اس ریاست کو انتشار کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔انتشار سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں۔پاکستان بنانا ری پبلک نہیں‘ یہاں قاعدے‘ قانون سے ریاستی امور چل رہے ہیں۔خواہشات قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتیں۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد کو عدلیہ کے متعلق غیر ضروری بیان بازی کی بجائے قانونی عمل پر بھروسہ کرنا چاہیے۔