مجھ پہ طاری ہے خیالِ لب جاناں ایسے ایک چڑیا بھی جو بولے تو برا لگتا ہے نہ جانے یہ شعر کس کمزور لہجے میں کہہ دیا وگرنہ چڑیا جیسا پیارا اور معصوم پرندا ہمیں بچپن ہی سے پسند ہے بلکہ ہم نے چوں چاں اور چیں چیں کرنا اکٹھے ہی سیکھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا پہلا خارجی تعارف ہی چڑیا کے ساتھ ہوا۔ یہ گھر کے آنگن کی رونق اور زینت ہے۔ آج مجھے مگر اس چڑیا کا خیال اس لیے آیا کہ میں نے 92نیوز کے صفحہ اول پر ایک تصویر دیکھی جس میں ہمارے وسیم اکرم پلس یعنی پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار چڑیا گھر میں تقریب کا افتتاح کر رہے ہیں اور ان کے پہلو میں صمصام بخاری اور جہانگیر ترین کھڑے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ انہوں نے اپنی گفتگو میں کیا کہا۔ ہمیں تو وہ چڑیا گھر میں بات کرتے ہوئے اچھے لگے۔ ویسے معلوم نہیں کہ چڑیا گھر کا نام چڑیا کے نام پر کیوں رکھا گیا حالانکہ اس میں تو شیر، ہاتھی اور بے شمار بڑے جانور ہوتے ہیں۔ شاید بچوں کو کشش کرنے کے لیے کہ بچے چڑیا کے نام پر چلے آتے ہیں۔ وجہ تسمیہ میرے ذہن میں نہیں ہے مگر چڑیا کی آفاقیت ہمارے سامنے ہے۔ ویسے بھی چڑیا کی وجہ سے چڑیا گھر جو کہ اصل میں جانوروں، پرندوں اور چرندوں کا قید خانہ ہے کا ایک اچھا تاثر ذہن میں آتا ہے۔ چڑیا کی مناسبت سے عثمان بزدار جیسے معصوم اور بے ضرر وزیر اعلیٰ کا تصور بھی میرے ذہن میں کچھ ایسا ہی ابھرتا ہے کہ وہ بے چارے تین میں نہ تیرہ میں۔ جیسے پرائے تو کیا اپنے بھی نہیں مانتے مگر ان کی وضعداری اور ثابت قدمی کہ ہلکا مسکرا دیتے ہیں۔اب دیکھیے کہ وہ بلانے پر چڑیا گھر جا پہنچے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے چڑیا گھر کو بھی پذیرائی بخشی۔ پتہ نہیں چڑیا گھر کی مناسبت ہی سے مجھے میرا اداکارہ بھی یاد آئی کہ وہ بھی ایک گونہ تعلق ان جانوروں سے رکھتی ہے۔ اس نے تو بلکہ ایک ہرن بھی گود لیا تھا جس سے اس کے کئی مداحوں نے رشک کا اظہار کیا تھا۔ ویسے مجھے بھی چڑیا گھر ہانٹ کرتا ہے۔ اللہ کی مخلوق وہاں ہے۔ دیکھا جائے تو انسان احسن تقویم ہے مگر جانوروں کی مختلف النوع پہچان دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ آپ چمپینزی کو دیکھیں کہ وہ انسان کی طرح اکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور پوری کوشش کے باوجود وہ انسان کی طرح سیدھا تیر کی طرح کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اس میں خم رہتا ہے۔ انسان یقیناً سیدھا کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر جہاں حکم ہو وہاں یہ جھکتا بھی اور سجدہ ریز بھی ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے ہم ٹی وی ٹیم لے کر ملتان اور بہاولپور کی ڈاکیومنٹری بنانے گئے تو بہاولپور کے چڑیا گھر میں ایک منظر دیکھا شیرنی بالکل بلی کی طرح اپنے بچے کو منہ میں اٹھا کر دوسری جانب جاری تھی۔ یقیناً وہ بھی اپنے بچوں کی جگہ بدلتی ہو گی۔ میں نے وہ خوبصورت شاٹ اپنے ڈرامے میں بھی استعمال کیا تھا۔ چڑیا کے ذکر سے مجھے شاہدہ حسن کا خوبصورت شعر بھی یاد آ گیا: میں نے ان سب چڑیوں کے پر کاٹ دیئے جن کو اپنے اندر اڑتے دیکھا تھا ایک چڑیا کا ذکر تو پی ٹی وی پر رہا۔ وہ چڑیا جو ہمارے ایک پلانٹڈ دانشور کو خبریں دیا کرتی تھی۔ عثمان بزدار بھی ایک ایسی چڑیا ہے کہ ہمارے کپتان کو بہت اچھی لگتی ہے اور ایسے ہی لگتا ہے کہ اس میں خان کی جان ہے۔ وگرنہ اتنی وسیع مخالفت کے باوجود یہ چڑیا اسی طرح آنگن میں جبکہ دوسرے پرندے اڑے جا رہے ہیں۔ لی جئیے بزدار کی سادگی عجز و انکساری پر مجھے شہنارکر کا شعر یاد آ گیا: بہت بلند اُڑانوں کی آرزو کب تھی ہمارے خواب تو چڑیا کے پنکھ مانگتے ہیں بہرحال آج کالم ہم نے عثمان بزدار اور چڑیا پر لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ آج بزدار صاحب کا بیان کافی زور دار ہے کہ وہ شوبازیوں سے خادم اعلیٰ نہیں بنا جاتا۔ واقعتاً ان کے ہاں واقعتاً دکھاوا یا شوشا بالکل نہیں ہے۔ وہ تو ہر ایرے غیرے کی بات سن کر بھی خاموش رہتے ہیں۔ اب کے انہوں نے کسانوں کے حق میں بات کرکے کہ ان سے گندم کا دانہ دانہ خریدا جائے گا اور انہیں نہیں کہنا پڑے گا کہ ’’اب کیا پچھتائے ہوئے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ مگر چڑیوں کا بھی تو ان کھیتوں میں حصہ ہے۔ کھیت غلے کا اگر ہے تو نہیں اس کے لیے چونچ میں چڑیا کے آتے ہیں فقط دانے دو ویسے چڑیاں کسی کے آنے کا پتہ بھی تو دیتی ہیں۔ قمر ریاض نے تبھی تو کہا ہے: یہ جو چڑیوں نے بہت شور مچایا ہوا ہے ایسے لگتا ہے کہ ملنے کوئی آیا ہوا ہے ویسے چڑیا گھر بہت ہی سکون کی جگہ ہے۔ یہاں جب شام اترتی ہے تو بہت ہی اچھی لگتی ہے۔ مختلف پرندوں کی آوازیں اس کی فضا میں رس گھولتی ہیں۔ یہاں بازار جیسا شور شرابا ہے ، نہ اسمبلی جیسی مچھلی منڈی،بزدار صاحب کو یقیناً یہاں آ کر بہت اچھا لگا ہو گا۔ ان کو کس کس نے نہ سنا ہو گا اور ان سے کون کون متاثر نہ ہوا ہو گا۔ معزز قارئین! میں نے یونہی سوچا کہ بزدار صاحب کی تھوڑی سی طرفداری کی جائے کہ سب ان پر تنقید فرماتے رہتے ہیں۔ ان میں کوئی تو ایسی بات ہے کہ عمران خان نے انہیں تبدیل نہیں کیا جبکہ فواد چودھری کی جگہ فردوس عاشق اعوان کو لے آئے۔ فردوس عاشق اعوان میں بہر حال ایک بات تو ہے کہ وہ ادھار بھی نہیں رکھتی۔ وہ خان صاحب کو زیادہ اچھے انداز میں ڈیفنڈ کر سکے گی۔اب سنا ہے چودھری سرور بھی گئے کہ گئے کہ جن کے بیان پر جہانگیر ترین اب تک ہنس رہے ہیں۔ وہی جہانگیر ترین جو سب شاہ محمود قریشی کا بھی مسئلہ میں دیکھیے کیسے عثمان بزدار کے ساتھ چڑیا گھر میں ان کے پہلو میں کھڑے ہیں اور صمصام بخاری بھی۔ بات وہی ہے کہ بزدار کا ملتان بھی مضبوط اور لاہور بھی۔ یہ کمال کی بات ہے کہ خان صاحب کا بزدار پر اس قدر اعتماد، اس قدر کہ خود عثمان بزدار کو بھی اپنے آپ پر نہیں۔ اپنے قارئین کے لیے ایک شعر اور اجازت: اگرچہ سعدؔ رستے میں بڑے دلکش جزیرے تھے مجھے ہر حال میں لیکن سمندر پار جانا تھا