وہ شعلہ بیان مقرر نہیں تھا مگر ان کا اظہار ایسا تھا جیسے مرزا غالب نے کہا تھا: ؎ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے اس کا سبب یہ تھا کہ وہ وہی کہتے تھے جو سچ سمجھتے تھے۔ وہ عوام کے عاشق سیاستدان تھے۔ انہیں غریب عوام سے بہت محبت تھی۔ انہوں نے جمہوری سیاست کی مگر وہ جمہوری سیاست حقیقی انقلابی سیاست تھی۔ انہوں نے اپنا موقف پیش کرنے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ بحث کرتے تھے اور بہت بحث کرتے تھے مگر وہ ’’بحث برائے بحث‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ وہ جیتنے یا ہارنے کے لیے بحث نہیں کرتے تھے۔ وہ سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بحث کرتے تھے۔ اب ہماری ملکی سیاست میں ان جیسے کردار نہیں رہے۔ ایسے کردار جن سے مخالفین نظریاتی اختلاف تو رکھتے تھے مگر ذاتی طور پر ان کے مخالفین بھی ان کی عزت کیا کرتے تھے۔کیوں کہ ان کی شخصیت پر کسی کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا۔ کرپشن تو خیر اس دور میں کسی بھی طرف نہیں تھی۔ نہ دائیں بازور والے کرپٹ تھے اور نہ بائیں بازو والے کرپٹ تھے۔اس دور میں جو وڈیرے اور چودھری ؛ خان یا سردار بھی سیاست میں آتے تھے وہ بھی دولت کے لیے نہیں بلکہ عزت کے لیے آتے تھے۔ اقتدار کی ہوس اور تکلیف کا خوف، ڈاکٹر مبشرحسن، ان دونوں برائیوں سے پاک تھے۔ڈاکٹر مبشر جوڑ توڑ کی سیاست میں یقین نہ رکھنے والے اور عوامی انقلاب کے خواب دیکھنے اور خواب دکھانے والے انسان تھے۔ ان کے گھر میں بہت اچھا کتب خانہ تھا۔ وہ سیاست سے وابستہ تھے مگر وہ ایسے سیاستدان تھے جو تاریخ؛ تمدن؛ تہذیب اور خاص طور پر ادب کے دلدادہ تھے۔ لاہور اب ایسا بیٹا کہاں سے لائے گا جو بااصول ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب سے دیوانہ وار محبت بھی کرتاہو۔ ان کی اس محبت کا ثبوت وہ چھوٹی اور خوبصورت کتابیں تھیں جو وہ میر تقی میر اور مرزا غالب کے دیوان سے اپنے پسند کے اشعار منتخب کرکے شائع کرواتے تھے اور جب ان سے کوئی باذوق شخص ملاقات کے لیے آتا تو وہ تحفے کے طور پر انہیں وہ کتابیں دیتے ۔ وہ سادہ مزاج انسان تھے۔ انہیں بڑی کتابیں لکھنے اور ان کی شاہانہ رونمائی کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ انہوں نے فکر انگیز کتابیں بھی لکھیں مگر وہ زیادہ تر آسان زبان میں، مختصر کتابچے اور پمفلٹ لکھتے اور اپنی جیب سے خرچ کرکے چھپواتے اور عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر مبشر کو پاکستان سے بیحد محبت تھی۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ وہ پنجابی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ وہ پاکستانی ہیں۔ وہ اپنے مخصوص موڈ میں کہا کرتے تھے کہ اگر پورے ملک کے لوگ صوبائیت اور لسانیت کے مرض میں مبتلا ہوجائیں تب بھی میں آخری شخص کے طور پر اپنے وطن عزیز سے محبت کرتا رہوں گا۔وہ دن رات ملک کے مسائل کے بارے میں سوچتے اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔ سیاست کی دنیا اب تو بہت زوال کا شکار ہے۔ مگر جب پاکستان میں سیاسی عروج تھا اس وقت بھی ڈاکٹر مبشر نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہ ان کے سیاسی اصول تھے جن کی وجہ سے انہوں نے اپنے پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو سے بھی اختلافات رکھے۔ پاکستان کے کسی آمر میں تو اتنی جرئت کبھی نہیں رہی کہ وہ انہیں وزیر اعظم یا صدر مملکت کا عہدہ بطور رشوت پیش کرنے کی جرأت کرتے۔ انہوں نے تو بینظیر بھٹو کی آفر بھی ٹھکرادی تھی۔ ان کی سیاسی سچائی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اس ملک کی ایک چھوٹی پارٹی پیپلز پارٹی شہید بھٹو میں شمولیت اختیار کی۔ جب ان سے بڑے صحافی اور اینکر پوچھا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب آپ اتنی بڑی شخصیت کے مالک ہیں اور اتنی چھوٹی سی پارٹی میں ہیں تو وہ کہا کرتے تھے ’’ہمارا پروگرام صحیح ہے‘‘ وہ صحیح پروگرام کا ساتھ دینے والے عظیم انسان تھے۔ انہوں نے جب بھی بات کی عوامی حقوق کی بات کی۔ انہیں اپنے ملک کے غریب لوگوں کے ساتھ سیاسی نہیں بلکہ سچی الفت تھی۔وہ اسٹیج پر ہوں یا کسی چینل کے پروگرام میں ہوں؛ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان سیٹھوں؛ امیروں؛ سرمائے داروں اور وڈیروں کا نہیں بلکہ غریب عوام کا ہے۔ ان کی پوری زندگی اس جدوجہد میں گذری کہ وہ عوام کو ان کا حق دلا سکیں۔انہوں نے پوری زندگی عوام کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ اپنے بارے میں بہت کم بات کیا کرتے تھے۔ انہوں نے جب بھی بات کی عوام کے حقوق کی بات کی۔وہ کمزوروں کے ساتھی اور کمزوروں کے مخالف قوتوں کے مخالف تھے۔ ڈاکٹر مبشر کا گھر تاریخی گھر تھا۔ وہ گھر جس میں آمر ایوب کے خلاف ایک تنظیم بنی۔ وہ گھر جس میں فکری نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ گھر جس میں غریب اور امیر کے ساتھ ایک ساتھ سلوک ہوا کرتا تھا۔ ان سے پیار کرنے والے بہت تھے وہ انہیں بڑی عقیدت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب ! آپ خوابوں میں رہتے ہیں۔ اور وہ جواب دیتے ’’پہلے خواب جنم لیتے ہیں اور پھر وہ خواب تعبیر کا پیراہن پہنتے ہیں‘‘ ان کو دیکھ کر اور ان کو سن کر مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ وہ انسان کی روپ میں ایک خوبصورت خواب تھے۔مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ خواب کبھی ختم نہیں ہوتے۔ خواب ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ انسان کا سفر ختم ہوجاتا ہے مگر خواب کا نہیں۔ خواب ایک آنکھ سے دوسری آنکھ میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ڈاکٹر مبشر کی فوت ہونے کی خبر جب میڈیا پر نشر ہوئی تب میری طرح بہت ساری آنکھوں میں محبت کے آنسو امڈ آئے ہونگے۔ اس وقت مجھے یونان کے عظیم ناول نگار کازانت زاکس کے یہ الفاظ یاد آئے تھے کہ ’’کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے وجود کو شعلے میں تبدیل کرتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب وہ شعلہ تھے۔ وہ ایک ایسی شمع کا شعلہ تھے جس کے لیے کہا گیا ہے: ع ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک‘‘ وہ آخر تک جلتے رہے۔ وہ طویل عمری اور کمزوری کے باعث آخری ایام میں بستر پر تھے مگر وہ پھر بھی اپنے شعور کی شمع کو جلاتے رہے اور نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہے کہ حق کی جدوجہد ہر حال میں ہوسکتی ہے۔آج ہم ڈاکٹر مبشر سے محروم ہوچکے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنا جسم تیاگنے کے بعد اب ہمارے دل میں منتقل ہوگئے ہیں اور وہ ہمارے دل میں ایک عظیم جذبے کے مانند دھڑکتے رہیں گے۔ہم جب بھی اپنے حالات کے حوالے سے اپنے آپ کو کمزور محسوس کریں گے تب ہمیں ڈاکٹر مبشر یاد آئیں گے اور ہم میں ایک عظیم توانائی پیدا ہوگی۔ڈاکٹر مبشر کو اس دنیا کا کوئی بھی سکہ خرید نہ کرپایا۔ انہیں کوئی عہدہ کمزور نہیں کرپایا۔ کیوں کہ وہ ایسی مٹی سے بنے تھے جس مٹی میں اس سوہنی دھرتی کی خوشبو رچی بسی تھی۔ اس لیے جب وہ اپنے دور کا یہ گیت سنتے کہ: ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے/قدم قدم آباد تجھے/قدم قدم آ باد‘‘ یہ ایک نغمہ بھی تھا۔ یہ ان کی دعا بھی تھی۔ یہ ان کی جدوجہد بھی تھی۔اگر آج مجھ سے کوئی یہ پوچھے کہ ڈاکٹر مبشر کیا تھے؟ تو میں کہوںگا کہ : ’’وہ ایک نغمہ تھے/وہ ایک دعا تھے/وہ ایک جدوجہد تھے‘‘ پہلے میں نے سوچا تھا کہ اس کالم کے عنوان کے لیے میں میر تقی میر کے اس شعر کا سہارا لوں کہ: پیدا کہاں ہے ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی ڈاکٹر مبشربہت مضبوط اور بیحد منظم انسان تھے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا ہاں !وہ عجب اور آزاد مرد تھے۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔