نہ یہ کسی سرکس کا تماشا ہے اور نہ کسی بھٹیار خانے کا منظر۔ گو شک کسی سرکس کا اور گمان کسی بھٹیار خانے کا بار بار ہوتا ہے! یہ امریکن کانگرس کے ایوان ِبالا کی کمیٹی براے قانون کا اجلاس ہے۔ سترہ سینیٹرز کے سامنے سپریم کورٹ کے نامزد، ایک جج صاحب بیٹھے ہوئے ہیں۔ سینیٹروں میں سے آدھے، زبان ِحال سے، گویا دانت پیستے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ   ع

پھس گئی جان شکنجے اندر۔۔ اِلَخ

اور باقی آدھے     ع

گر بر سر و چشم ِمن نشینی 

نازت بکشم کہ نازنینی

کی تعبیر پیش کر رہے ہیں۔ سترہ لوگ، نصف جس کا ساڑھے آٹھ بنتے ہیں، ایک دوسرے کے مقابل ہیں! یہ "ساڑھے" کی تقسیم، غلط نہیں۔ اس لیے کہ آٹھ سینیٹر ایک طرف ہیں اور آٹھ دوسری طرف۔ سترہویں سینیٹر صاحب، دودلے ہو رہے ہیں۔ یعنی انہیں انہیں آدھا اِدھر سمجھیے، آدھا اْدھر۔ اس تقسیم سے، بظاہر تاثر یہی ملے گا کہ    ع

جس نے لگائی ایڑ، وہ خندق کے پار ہے

اس کے بغیر، کہانی میں ٹْوئسٹ کیسے پیدا ہو؟ کارروائی چیئرمین صاحب شروع کریں گے، جو عمر کے اس حصے میں ہیں، جہاں نہ منہ میں دانت، نہ پیٹ میں آنت۔ مگر گھبرائیے نہیں! یہ دیکھنے میں جتنے بھی پکے پان ہوں، اسماعیل میرٹھی کی پَن چکی کی طرح    ع

دْھن کے پورے ہیں، کام کے پکے

ان کے ساتھ ہی حزب ِاختلاف والوں کی سب سے سینئر ممبر بیٹھی ہیں۔ یہ بھی عْمر کی اتنی دہائیاں پار کر چکی ہیں کہ "بہت گزر گئی، تھوڑی رِہ گئی" کی منزل میں ہیں! ان دو کو دیکھ کر، سودا کی ہجو یاد آ جاتی ہے، جو کسی کْہن سال گھوڑے پر کہی تھی۔

ہے پیر اس قدر کہ جو بتلائے اس کا سِن

پہلے وہ لے کے ریگ ِبیاباں کرے شمار

لیکن مجھے، زروے تواریخ یاد ہے

شیطاں اسی پہ جنت سے نکلا تھا ہو سوار

آگے چلیے۔ ارے یہ کیا؟ ان عمر رسیدہ بڑی بی کے ساتھ، ایک ایسے صاحب بیٹھے ہیں، جو ان سے بھی دس پانچ سال، بڑے ہی ہوں گے! یہ تین، اس کمیٹی کے کلیدی ممبر ہیں۔ زندگی کے اس آخری موڑ پر، جسے ارذل العمر کہا گیا ہے، "قوم کی خدمت" کی دْھن، ان پر سوار ہے۔ باقی ممبروں میں، ایک آدھ کے سوا، سارے، یا تو ادھیڑ عمر ہیں یا ایک آدھ بوڑھا اور ایک دو جواں سال۔ 

لیجیے اس منظر میں ایسا کھویا گیا کہ میٹنگ کا ایجنڈا بتانا بھول گیا۔ یہ لوگ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ جج صاحب کی نامزدگی کو منظور یا رَد کرانے کے لیے، ووٹ دے سکیں۔ لیکن اصل قصہ یہ ہے کہ خود منصف صاحب پر ایک بڑے جرم کا الزام ہے۔اور وہ یہ کہ پینتیس چھتیس سال پہلے، کسی 

پارٹی میں، نشے سے  چْور، موصوف ایک لڑکی پر جنسی حملے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وہ لڑکی اب ادھیڑ عمر ہے اور کسی یونیورسٹی میں نہایت اچھی شْہرت کی پروفیسر۔ اسے سو فیصد یقین ہے کہ حملہ آور یہی تھے۔ مگر جج صاحب صاف انکار کرتے ہیں۔ خاتون پروفیسر ابھی ابھی، اپنا بیان اور گواہی مکمل کر کے یہاں سے اٹھی ہے۔ اب باری جج صاحب کی ہے۔ یہ آدھا گھنٹا خوب گرجتے برستے ہیں۔ یہ خود ملزم ہیں مگر فرماتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے مخالف سینیٹروں نے، تگڈم کر کے، سپریم کورٹ میں میری ججی روکنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی ہے۔ منصف صاحب جانتے 

ہیں کہ اگلے چند گھنٹے، آدھے سینیٹر، ان کی خوب مدح کر کے، جرم سے ان کی برأ ت ظاہر کرنے کی کوشش کریں گے۔ باقی آدھے، ہر ممکن طریقے سے، جرم ان کے سر منڈھ کر رہیں گے۔ آئیے، دو تین سینیٹروں کا ان کے ساتھ مکالمہ، سنتے ہیں۔

ڈیمو کریٹ خاتون سینیٹر۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بعض اوقات، آپ ضرورت سے زیادہ پی جاتے تھے۔ یہ بتائیے کہ آپ نے کبھی اتنی بھی چڑھائی ہے کہ بالکل بے سْدھ ہو گئے ہوں؟

جج صاحب۔ آپ کا مطلب ہے انٹاغفیل؟ پیتی تو آپ بھی ہوں گی۔ کیا آپ کبھی انٹا غفیل ہوئی ہیں؟

خاتون سینیٹر۔ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آپ کبھی آئوٹ نہیں ہوئے؟

جج صاحب۔(پھر جوابی سوال کرتے ہیں) میں بھی متجسس ہو گیا ہوں۔ کیا آپ کبھی آئوٹ ہوئی ہیں؟

خاتون سینیٹر۔ میں بلانوش نہیں ہوں۔

جج صاحب۔ میں بھی دریانوش نہیں ہوں!

ریپبلکن چیئرمین صاحب۔ سینیٹر صاحبہ کا وقت ختم ہو گیا۔

کمیٹی روم میں موجود مظاہرین، جو ساری کی ساری خواتین ہیں، ایک دفعہ پھر نعرے بازی شروع کرتی ہیں۔ جج صاحب کا نام لے لے کر "ہائے ہائے" اور "نامنظور، نامنظور" کے نعرے۔ چیئرمین صاحب کے اشارے پر، سکیورٹی والے، ان خواتین کے بازو پکڑ کر، انہیں نکال دیتے ہیں۔

اب باری ایک شعلہ بیاں اور آتش بجاں ریپبلکن سینیٹر کی ہے۔

ریپبلکن سینیٹر۔ (ڈیموکریٹ سینیٹروں کو مخاطب کر کیِ) شرم آنی چاہیے تم لوگوں کو۔ اتنی فریب دہی؟ عوام کی آنکھوں میں، دھول جھونکتے ہو؟ تم سے برداشت نہیں ہو رہا کہ ایک اور قدامت پسند جج، سپریم کورٹ میں تعینات ہو رہا ہے۔ (کئی منٹ کوسنے دینے, لعن طعن کرنے کے بعد) خدا کرے کہ تمہاری بد خواہشات، کبھی پوری نہ ہوں۔

چند روز بعد، جج صاحب کمیٹی سے بھی منظوری پا لیتے ہیں اور ایوان ِبالا سے بھی! 

پردہ گرتا ہے

٭٭٭٭٭

آنا شاہ صاحب کا امریکہ میں

شاہ محمود قریشی صاحب کی، لگتا ہے کہ دیرینہ تمنائوں میں سے ایک اَور، پوری ہو گئی ہے۔ ان کے آئیڈیل ذوالفقار علی بھٹو کی شہرت کو پَر کیسے لگے تھے؟ ایوب خان کے عہد میں، وزیر ِخارجہ بنے، پھر "اصولی" اختلاف کرتے ہوے، علیحدہ ہو گئے۔ یو این میں ایک اتنی دھواں دھار تقریر کی، جسے ان کی پارٹی آج بھی جھنڈے پر چڑھائے ہوئے ہے۔ 

شاہ صاحب بھی وزیر ِخارجہ ہوے۔ "اصولی" اختلاف کرتے ہوئے، یہ بھی ایک دفعہ وزارت چھوڑ چکے ہیں۔ یو این میں تقریر باقی رِہ گئی تھی، سو وہ بھی ہو کر رہی۔ ہاں! ایک غلطی شاہ صاحب سے ضرور ہوئی۔ نیا پاکستان تو بن چکا۔ شاہ صاحب نہیں جانتے تھے کہ نیا امریکہ بھی بن چکا ہے! اس نئے امریکہ میں، سر ِراہے، صدر سے معمول کی علیک سلیک، باہمی امور پر تبادلہ خیال نہیں ہو سکتا۔ یقینا، پرانے امریکہ میں محکمہ خارجہ، اتنی سرد مہری نہ کرتا کہ شاہ صاحب کے بیان کی باقاعدہ تردید کرتا۔ یہ شاہ صاحب کی خوش قسمتی ہی ہے کہ تردید محکمہ خارجہ کی طرف سے آئی۔ اگر یہ توائی نہ آتی تو اگلے دن، صدر ٹرمپ کی ٹوئیٹ کا سامنا ہوتا!

یہ بھی سن لیجیے کہ "نزلہ بر عضو ِضعیف می ریزد" کے مصداق، امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کا مستقبل، سراسر شاہ صاحب کی کامیابی سے وابستہ ہے۔ شاہ صاحب خوش و خرم اور کامران نہ پلٹے، تو سفیر صاحب کی بھی خیر نہیں!