تمام جہانوں کو مبارک ہو کہ آج رحمت للعالمین ؐکی دنیا میں تشریف آوری کا روز سعید ہے۔ اللہ نے اپنے آخری نبیؐ کے ذریعے دین مکمل ہونے کی خبر دی۔ ساڑھے چودہ سو سال ہوئے مسلمان اللہ کی وحدانیت اور خاتم النبین ؐکی تعلیمات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ آپؐ کی تشریف آوری سے قبل کا معاشرہ اپنی غیر اخلاقی اور ناپسندیدہ رسوم کے باعث عہد جاہلیت کہلاتا ہے۔ حکمران رعایا کے مالک کہلاتے تھے۔ اللہ کریم کی فرمانبرداری کی بجائے بہت سے لکڑی ‘ پتھر اور آٹے کے بنے بت خدا بنا لئے گئے تھے۔ بیٹی ہوتی تو خاندان اسے اپنے لئے رسوائی جان کر زندہ دفن کر دیتا۔ جھگڑا معمولی بات سے شروع ہوتا اور صدیوں کی لڑائی میں ڈھل جاتا۔ خرافات پر فخر کیا جاتا۔ ایسے معاشرے کو اللہ کے دین کی طرف موڑ دینا مشکل کام تھا۔ ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہ انسانی عقل کو حیرت میں مبتلا کرنے والی کئی شعبدہ بازیوں سے بھرا ہوا ہے۔ امت مسلمہ ڈیڑھ ارب انسانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا کے ستاون ممالک مسلم ریاستیں کہلاتے ہیں۔ اللہ کریم نے دنیا کی دولت اور ثروت سے عرب مسلمانوں کو نواز رکھا ہے۔ ان کے سامنے ریاست مدینہ کے والی کی زندگی بطور مثال موجود ہے لیکن حیرت اور دکھ کا مقام ہے کہ اس قدر دنیاوی وسائل اور قوت سے بھر پور امت مسلمہ کی سیاسی‘ سماجی اور معاشی حالت قابل رحم ہے۔ ریاست پاکستان جو مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی حفاظت کے لئے حاصل کی گئی وہ انتظامی خرابیوں کی زد میں ہے۔ مسلمان رسول کریمؐ کی ذات پاک سے رہنمائی لینے کی بجائے ان خرابیوں میں گھر گئے جو ان کی شناخت اور سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ رسول اللہ ؐکی ذات پاک میں ہمیں ایک مثالی حکمران کے اوصاف دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ریاست مدینہ کی سیاسی تنہائی ختم کرنے کے لئے حبثہ ‘ فارس اور یمن کے حکمرانوں کو خط لکھے۔ دعوت حق دی۔ اپنا پیغام پہنچایا۔ مدینے کے یہودیوں سے معاہدہ کیا۔ صحابہ کرامؓ کی اس طرح تربیت کی کہ وہ ایک سیاسی نظام کو تشکیل دے سکیں اور انسانیت کے لئے خدمات انجام دے سکیں۔ آپ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ نے یقینا اس تربیت سے فیض پایا اور اسلام کا پیغام پہنچا۔ ایران ‘ عراق‘ ترکی‘ ہندوستان ‘ چین میں اسلام پہنچا۔ اسلام صرف رب کریم کے احکامات کا نام نہیں بلکہ رسول کریمؐ کی سیرت مبارکہ بھی اس کا حصہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کرتار پور راہداری کا افتتاح کرتے ہوئے رسول کریمؐ کی ذات مبارکہ کی مثال دی کہ آپؐ رحمت للعالمین ہیں۔ نبی کریمؐ نے بجا طور پر مسلمان حکمرانوں اور ریاستوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ اقلیتوں کے عقائد کا احترام کیا جائے‘ انہیں مذہبی آزادی دی جائے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے رسول کریمؐ کی تعلیمات کو ہی پیش نظر رکھ کر کہا تھا کہ پاکستان آزاد ہے۔ یہاں بسنے والے ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکے۔ رسول اللہ ؐ کا پیغام آفاقی ہے۔ ان کی تعلیمات صرف مسلمانوں کو متاثر نہیں کرتیں بلکہ ان کی برکات سے پوری نسل آدم استفادہ کرتی ہے۔ آپؐ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر کھلے الفاظ میں کہا کہ ’’کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے سوا کوئی برتری حاصل نہیں‘‘ یہ اصول پوری انسانیت کے لئے ہے۔ اسی اصول نے انسانی احترام کو بنیاد فراہم کی۔ آج اسی حکم سے روشنی پانے والے دنیامیں معتبراور محترم سمجھے جاتے ہیں۔ آپؐ کی تعلیمات کی آفاقیت کے باعث آپؐ کو محسن انسانیت کہا جاتا ہے۔ نبی پاکؐ کی ولادت دنیا میں جہالت کے خاتمہ کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ شعور نے آپ سے جلا پائی ہے۔ تہذیب آپؐ کے فرامین کے سائے میں پروان چڑھی اور اخلاقیات آپؐ کے عمل کا نام ٹھہرا۔ ایسی مقدس اور برگزیدہ ہستی کی دنیا میں آمد کا جس قدر جشن مسرت منایا جائے کم ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان اس روز جلوس نکالتے ہیں۔ محافل میلاد و نعت کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ درود شریف کا ورد ہوتا ہے۔ آپؐ اور آپؐ کے اہل بیت اطہار کا ذکر مبارک سے قلب و جاں کی تسکین کا سامان کیا جاتا ہے۔ یتیموں کے والی‘ غلاموں کے مولا کی آمد نے تاریکیوں سے بھری کائنات میں رنگ و نور کے جو جلوے بکھیرے ان سے ہر دور کے نصیب منور ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان رسول اللہؐ کے پیروکاروں کا ملک ہے۔ آج ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو یہ پیارا ملک مسلکی اور سیاسی جھگڑوں کے باعث مسائل میں الجھا دکھائی دیتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ایک ہی سب کا نبی‘ دین بھی ایمان بھی ایک‘ کچھ بڑی بات نہ تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک۔ ہماری اس کمزوری اور نااتفاقی نے ہمیں زمانے میں رسوا کر دیا۔ پاکستان جس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہو سکا۔ کیا یہ امر ہمیں متحد کرنے کے لئے کافی نہیں کہ ہم سب حضرت محمد ﷺ کے امتی ہیں۔ اقتدار اور اختیار دنیا کے معاملات ہیں۔ اصل حساب اور معاملہ تو اس روز درپیش ہو گا جب اللہ کے آخری رسولؐ ہمیں پوچھیں گے کہ میری امت کے تحفظ کے لئے حاصل کئے گئے پاکستان کے ساتھ آپ نے کیا کھلواڑ کیا؟ نبی پاکؐ کی سیرت مبارکہ ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم ایک اچھے انسان کیسے بن سکتے ہیں۔ ایک اچھے شہری کو کیسا ہونا چاہیے‘ ایک باپ کا فرض کیا ہے‘ ایک مبلغ کا طرز عمل کیسا ہو۔ ایک تاجر کیسے معاملات کرتا ہے اور ایک حکمران کس طرح اپنی ریاست اور اس ریاست کے شہریوں کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ یہ مبارک دن ہمیں نصیب ہوا۔ ہمارا نصیب سبحان اللہ۔