کتاب چھپوانے کے بعد دوسرا مرحلہ اس کی ترویج کا ہوتا ہے۔ اپنی کتاب کی مشہوری کے لئے یہاں لکھاریوں کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اخبارات میں کتاب سے متعلقہ خبریں لگوانے اور کالم لکھوانے کے علاوہ اپنے ہی خرچ پر اپنے اعزاز میں تقاریب برپا کرنا پڑتی ہیں۔ اور اب تو فیس بک کی سہولت موجود ہے کتاب آ جائے تو پھر یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوستوں کی ہر دوسری پوسٹ اسی کتاب سے متعلق ہو۔ اپنے دوستوں کو کتابیں تحفتاً دی جاتی ہیں اس توقع کے ساتھ کہ کتاب ملتے ہی دوست اس کی ایک تصویر کھینچے گا اور فوراً شکریہ کے ساتھ اسے فیس بک پر پوسٹ کر دے گا۔ یاد رہے کہ پوسٹ کے ساتھ کتاب اور مصنف کے محاسن اور خوبیوں سے لبریز ایک مختصر سی تحریر ضرور ہونی چاہیے۔ الغرض کتاب چھپوانے کے بعد کتاب کی مشہوری کرنا ایک الگ ہنر ہے۔ اور جو لوگ اس ہنر سے نابلد ہوتے ہیں ان کی بہترین کتابیں بھی ہمارے جیسے سماج میں جہاں لوگ خرید کر کتاب پڑھنے کے عادی نہیں، توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب ہے عہد نبویﷺ میں شعر و ادب ۔ یہ ایک تحقیقی کتاب ہے اور پڑھنے والے کو عہد نبوی میں شعرو ادب کی تاریخ کے حوالے سے جامع معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے والے صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے شیریں زادہ خدوخیل ہیں۔ یہ نام میرے لئے بھی نیا ہے۔ کتاب کے دیباچے سے معلوم ہوا کہ مصنف نے سیرت النبیؐ کے حوالے سے اور بھی کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ پس ورق پر ان کا تعارف ہمیں بتاتا ہے کہ فاضل مصنف ایم اے اردو۔ ایم اے پشتو بی ایڈ ہیں اور ماہر مضمون اردو کی حیثیت سے بونیر کے ایک سیکنڈری سکول میں پڑھاتے ہیں۔ سیرت النبیؐ کے موضوع پر شیریں زادہ نے پشتو اور اردو زبان میں کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ شعر و ادب کے حوالے سچی بات ہے کہ یہ کتاب پڑھ کر عہد نبوی اور اس سے پہلے کا ایک پورا منظر نامہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ اس سے پہلے میں تو بس اتنی ہی معلومات رکھتی تھی کہ حسان بن ثابت ؓ صحابی شاعر تھے اور رسول خداؐ ان سے فرمائش پر اشعار سنا کرتے تھے۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ شاعرانہ صفاحت و بلاغت تو قدیم عربوں کے خمیر کا حصہ تھی اور یہ کہ نبی اکرمؐ کے خاندان مبارک کے مردو خواتین میں بلا کا شاعرانہ ذوق پایا جاتا تھا۔ آپؐ کی چھ پھوپھیاں تھیں اور تمام اعلیٰ ادبی ذوق کے حامل اشعار کہتی تھیں۔ آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب بھی اپنے احساسات کا اظہار اشعار میں بخوبی کر لیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے مصنف نے دو تاریخی واقعات بیان کئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب اشعار کے انداز میں اپنے احساسات کا اظہار کرتے تھے۔ اپنے جلیل الدقر پوتے محمدؐ کی پیدائش پر عبدالمطب آپؐ کو گود میں اٹھائے کعبہ لے کر آتے ہیں اور وہاں دعائیہ اشعار پڑھتے ہیں جس کا ترجمہ یوں ہے۔ ’’ہر طرح اور ہر قسم کی حمدو ثنا اس خدا کے لئے ہے جس نے مجھے یہ پاکدامن لڑکا عنایت فرمایا‘‘۔ یہ لڑکا گہوارے ہی میں تمام لڑکوں کا سردار ہو گیا میں اس کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں‘‘ابن ہشام لکھتے ہیں کہ جب رسول کریمؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنی چھ بیٹیوں صفیہ‘ برۃ‘ عاتکہ‘ ام حکیم البیضا‘ امیمہ اور ارویٰ سے کہا کہ مجھے رو کہ میں بھی سنوں کہ تم میرے مرنے کے بعد کیا کیا کہو گی۔ روایت ہے کہ چھ کی چھ بیٹیوں نے منظوم مرثیے کہے۔ برۃ بنت عبدالمطلب نے جو منظوم مرثیہ پڑھا اس کا گداز دیکھیے۔ اے میری آنکھو! نیک سیرت اور اورسخی پر موتیوں جیسے آنسوئوں سے سخاوت کرو۔ عاتکہ بنت عبدالمطلب نے اپنے باپ کی متوقع جدائی پر اشعار میں اپنے دل کا حال یوں کہا: اے میری آنکھو! خوب تیزی سے جھڑی لگا دو اور بہہ جائو اور رونے کے ساتھ رخساروں پر طمانچے بھی مارو کہ نرم سیرت والے کشادہ ہاتھوں والے‘ وفادار پختہ ارادے والے‘ کثیر الخیر شخص کی جدائی پر گریہ کرو!امیمہ بنت عبدالمطلب نے جو مرثیہ پڑھا اس کی ایک جھلک دیکھیے۔ ’’میں تو جب تک رہوں گی آبدیدہ و غمگین ہی رہوں گی اور میری محبت کے لحاظ سے وہ اس کا سزاوار تھا۔ ایک صاحبزادی ارویٰ اپنے عظیم والد کی متوقع دائمی جدائی پر یوں نوحہ کناں ہوتی ہے! ’’میری آنکھ ایک سرتاپا سخاوت اور حیا شعار پر روتی ہے اور اس آنکھ کے لئے رونا ہی سزا وار ہے‘‘ والد کی خوبیوں کا تذکرہ اس طرح کرتی ہیں کشادہ اور نرم ہاتھ والے بھاری بھرکم سفید پیشانی والے جس کی سفیدی ایسی تھی گویا ایک روشنی ہے۔ پتلی کمر والے عجیب حسن و شجاعت والے‘ بہت سے فضیلتوں والے پر جو قدیم عزت و بزرگی اور مدح و ثنا کا مالک ہے۔ حضرت عبدالمطلب کا وقت آخر تھا۔ ان کی فرمائش پر چھ کی چھ صاحبزادیوں یعنی رسول اکرمؐ کی پھوپھیوں نے اپنے دلی جذبات اور رنج و غم کا اظہار ان دلگداز مرثیوں کی صورت کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وقت آخر حضرت عبدالمطلب کی زبان بند ہو چکی تھی وہ اس وقت بولنے سے قاصر تھے تاہم عرب کا یہ سردار ایک اعلیٰ ادبی اور شعری ذوق رکھتا تھا سو سر کے اشارے برابر ان مرثیوں کی داد اپنی بیٹیوں کو دیتے رہے اور انہوں نے ان اشعار کو پسند کیا کہ واقعی یہ ان کے شایان شان کہے گئے۔(جاری)