اردو کے ظریفانہ ادب کو عام چلن بلکہ فیشن بنانے والے مشتاق احمد یوسفی اپنی اننگ کھیل کر دنیا کے اس گرائونڈ سے رخصت ہوئے جس میں اب ادب اور لکھے ہوئے لفظ کے لیے گنجائش تقریباً ختم ہو چلی ہے۔ یوسفی صاحب جب تک ہمارے درمیان رہے‘ ان کی ذات اور ان کے لکھے ہوئے ادب کے حوالے سے خود ادب کا اعتبار اور وقار باقی رہا۔ ان کے پُر مزاح مگر پُر حکمت جملے اور فقرے محفلوں میں تحریروں میں کوٹ کیے جاتے تھے ایسے کہ جیسے یوسفی کے فقرے نہ ہوں ارسطو و افلا طون کے اقوال زریں والے فقرے اور Sayingsہوں۔ کوریٹل کوٹ ہوں۔ یہ مقام اردو ادب میں شاید یوسفی صاحب کے علاوہ کسی کو حاصل نہ ہوا اور یہ بھی کہ وہ واحد ادیب تھے جن کے فقرے لوگوں کو زبانی ازبر تھے۔ میں تو کچھ ایسے مداحوں سے بھی واقف ہوں جو مزاح یوسفی صاحب کے حافظ ہیں۔ یوسفی دنیائے ادب کے حوالے سے معاشرے میں وہی مقبولیت اور ہر دلعزیزی رکھتے تھے جو آج کل کسی مقبول فلم اسٹار یا کرکٹر کی پہچان ہے۔ اب ادیب اور لکھیکھ کو کون جانتا اور پہچانتا ہے‘ مقبولیت اور ہر دلعزیزی تو بہت دور کی بات ہے۔ فیض صاحب محبوبیت اور مقبولیت کی جس معراج پہ پہنچے‘ یوسفی صاحب کو وہ محبوبیت تو حاصل نہ ہوئی لیکن مقبولیت اور پسندیدگی میں وہ فیض صاحب سے رتبے میں کسی طرح کم نہ تھے۔ شاعروں میں ایسی پسندیدگی اور ہر دلعزیزی کی مثالیں تو اور بھی مل جاتی ہیں لیکن نثری ادب میں واحد مثال مشتاق احمد یوسفی ہی ہیں حالانکہ اس ناچیز کی رائے میں مزاح نگاری میں ابن انشا کا پایہ ان سے بلند ہے لیکن انشا جی بھی اور ان کا مزاحیہ و طنزیہ ادب بھی ’’اسٹیٹس سمبل‘‘ نہ بن سکا۔ یوسفی مرحوم کی یہ انفرادیت تھی کہ ان کے فقروں پر ہنسنا فیشن بن چکا تھا۔ ٹیلی ویژن اسکرین یا شہر کی ادبی محفلوں میں جب وہ اپنا مضمون سناتے تھے تو ہر دوسرے فقرے پر قہقہے بلند ہوتے تھے اور ان قہقہوں میں وہ بھی شریک ہوتے تھے جن کے پلے ان فقروں کے معنی و مفہوم نہ پڑتے تھے لیکن قہقہہ اس لیے لگانا ضروری تھا کہ بد ذوق نہ سمجھے جائیں ۔تو ادب کو سراہنا‘ اسے اسٹیٹس سمبل بنا دینا‘ یہ فخر و اعتبار بھی یوسفی صاحب ہی کے حصے میں آیا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ یوسفی صاحب کا مزاح صبر آزما محنت اور فنی ریاضت کا نتیجہ ہوتا تھا۔ وہ ایک ایک فقرے کو آخری شکل دینے کے لیے لکھتے تھے اور لکھ کر بار بار کاٹتے تھے۔ اسے ادبی اصطلاح میں کرافٹ کہا جاتا ہے‘ ادب کی دنیا میں خواہ مشرق ہو یا مغرب‘ کرافٹ یا ریاضت کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اس طریقہ کار پر لکھنے کے لیے بس یہی اعتراض وارد ہوتا ہے کہ پڑھتے ہوئے ایسے جملوں اور فقروں پر بے ساختگی اور برجستگی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ان فقروں کے عقب سے وہ مشقت و ریاضت جھانکتی اور اس محنت کا احساس دلاتی نظر آ جاتی ہے جو لکھنے والے نے اسے لکھنے کے لیے کی ہوتی ہے لیکن بات یہ بھی تو ہے کہ کھانے والے کو لذت کام و دہن سے غرض ہوتی ہے اسے کیاکہ پکانے والے نے پکانے میں کتنی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یوسفی صاحب لکھتے ہوئے اپنا جو خون جگر لکھنے پر صرف کرتے تھے اس سے ان کی تحریر چمک اٹھتی تھی۔ اسلوب ایسا گھٹا ہوا‘ مضبوط اور سبک‘ لفظوں کی تراش خراش ان کی دروبست ایسی عمدہ کہ مجال ہے جو ایک لفظ بھی ادھر سے ادھر کرنا ممکن ہو ‘وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود۔ یوسفی صاحب کا تخلیق کردہ سارا ادب (آخری کتاب شام شعر یاراں‘‘ کو چھوڑ کر) اسی خون جگر کا آئینہ تھا جس میں ہم معاشرے اور کرداروں کی مضحکہ خیزیوں اور بوالعجببیوں کو دیکھ کر بے اختیار مسکرا اٹھتے ہیں۔ مزاح لکھنا ویسے بھی تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے اک ذرا توازن بگڑا اور رسے کا ساتھ چھوٹا۔ یعنی مزاح پیدا کرنے کی کوشش ناکامی کی صورت میں پھکڑ پن اور سوقیانہ پن کا شکار ہو کر پڑھنے والے کو بدمزہ کر دیتی ہے۔ اسی لیے مزاح نگاری ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوتی تاوقتیکہ قدرت یہ وصف فطرت میں ودیعت نہ کر دے۔ یوسفی صاحب مرحوم بہت عرصہ جیے‘ وہ چاہتے تو اپنے مطالعے اور زور قلم سے لکھ لکھ کر انبار لگا سکتے تھے لیکن ان کی قابل قدر کتابیں صرف چار ہیں۔ یہی چار کتابیں ’’خاکم بدھن‘‘چراغ تلے ‘ زر گزشت اور ’’آب گُم ‘‘ہیں۔ ان چاروں کتابوں کی تصنیف کے درمیان بھی طویل وقفے آئے اسی لیے ان کی کسی نئی کتاب کا آنا ادبی دنیا میں ایک واقعہeventہوتا تھا۔شائقین ادب ان کی کتاب پر ہاٹ کیک کی طرح ٹوٹتے تھے اور کتاب ہاتھوں ہاتھ نکل جاتی تھی۔ ایڈیشنوں پر ایڈیشن‘ ناشر حضرات جو کسی بھی نئی کتاب کے چھاپنے پر آسانی سے راضی نہیں ہوتے یہ تمنا کرتے تھے کہ یوسفی صاحب کی کتاب چھاپنے کی سعادت اور تجارت انہیں نصیب ہو ۔انہیں ناشروں کی جو پرکشش آفریں ہوتی تھی‘ وہ آفریں تو فیض اور فراز صاحبان کو بھی نہیں ہوئیں ‘یہ الگ بات کہ خدا نے یوسفی صاحب کو انتہائی تنگ دستی کے دن دیکھنے کے بعد ایسی عافیت اور خوشحالی و تونگری عطا کر دی تھی کہ وہ ان پرکشش آفروں سے متاثر نہ ہوتے تھے۔ یوسفی صاحب کو سرکار کی طرف سے اعتراف کمال ایوارڈ کی جو خطیر رقم ملی وہ بھی انہوں نے ایدھی ٹرسٹ کو عطیہ کر دی۔وہ بطورانسان نہایت خلیق ‘ وضع دار دوست باش بلکہ دوست نواز اور ملنسار واقع ہوئے تھے۔ انسان کب اپنے عیوب اور نقائص سے مبرا ہوتا ہے لیکن جب اوصاف تعداد میں خامیوں اور خرابیوں سے زیادہ ہوں تو خوبیوں ہی سے وہ پہچانا جاتا ہے اور خامیوں کو انسانی کمزوری بلکہ مجبوری جان کر نظر انداز ہی کیا جانا چاہیے۔ ان کی رحلت پر ڈیفنس کی مسجد سلطان کے چار اطراف نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آنے والوں کی گاڑیوں کا جو ہجوم تھا اور مسجد جس طرح ان کے چاہنے والے قدر دانوں سے بھری تھی وہ اس کی نشانی تھی کہ خدا جسے چاہے خلق خدا کا محبوب بنا دے۔اور خدا یہ محبوبیت بھی ’’میرٹ‘‘ پر ہی عطا کرتا ہے اور اس کے میرٹ میں صرف فن کا اعلیٰ معیار ہی ہونا شرط نہیں ہوتا۔ بطور انسان درد مندی اور انسان دوستی کے اعلیٰ اوصاف کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے۔ بلا شبہ یوسفی صاحب میں یہ انسانی اور اخلاقی خوبیاں بدرجہ اتم تھیں۔ ادب اور لکھے ہوئے لفظ کی بے توقیری کے اس زمانے میں یوسفی صاحب کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ایک الم انگین سانحہ ہے۔ یہ کہنا کہ وہ نہیں مرے ادب مر گیا ایک روائتی سا بیان ہو گا لیکن ایسا کہنا کچھ غلط بھی نہ ہو گا۔پرانی پیڑھی سے تعلق رکھنے والے جو ادبا و شعرا اٹھتے جاتے ہیں اور اپنی جو جگہ خالی کرتے جاتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ اب انہیں پر کرنے والا کم سے کم بعد کی نسل میں کوئی نظر نہیں آتا۔ یہی ہمارا تہذیبی اور ادبی المیہ ہے اور اسی المیے سے یہ تشویش بھرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ادب و شعر کے بغیر ہماری تہذیب و معاشرت کی شکل و صورت کیا بنے گی؟ کیا ہم مہذب اور اچھا معاشرہ بنا سکیں گے؟ اس کا بہت کچھ دارومدار مستقبل پر ہے لیکن مستقبل کی بابت قیاس آرائی بھی حال کے منظر نامے سے ہوتی ہے اور ہمارا حال کیسا ہے اس کی بابت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔یوسفی صاحب ہی کا فقرہ ہے انسان واحد مخلوق ہے جو اپنا زہر اپنے دل میں رکھتا ہے۔