اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے کرونا وائرس کے باعث 408 ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے فیصلے پر حکومتی حلقوں کے منفی رد عمل سے متعلق کیس کی سماعت پر عدالت نے سیکرٹری قانون کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے متعلق تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اﷲ نے ریمارکس دئیے کہ کرونا وائرس شروع ہوا تھا تو ایگزیکٹو کو سب سے پہلے دیکھنا چاہیے تھا کہ کوئی غیرضروری جیل میں نہیں لیکن یہاں عدالت پر تنقید شروع کردی گئی۔ دوران سماعت سیکرٹری قانون و انصاف ،ڈی سی اسلام آباد اور، نجی اخبار کے رپورٹر ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس اطہر من اﷲ سیکرٹری قانون خشیح الرحمن پر برہم ہوگئے اور کہا کہ سیکرٹری صاحب مجھے بتائیں کہ آپ نے اپنے ڈیپارٹمنٹ سے منسوب بیان کی تردید کی یہ ایک سیریس معاملہ ہے عدالت پر الزام لگا ہے ۔سیکرٹری قانون نے کہا کہ اخبار میں چھپنے والی خبر کے ساتھ ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔عدالت نے سیکرٹری قانون کو خبر پڑھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ کیا حکومت عدالت کے اس اقدام سے خوش نہیں، سارے کام ایگزیکٹو کے کرنے کے ہیں، الزام عدالتوں پر لگتا ہے کیا آپ کو ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ جیل میں زائد قیدی رکھیں، ایگزیکٹو کیسے عدالت پر الزام لگا سکتی ہے ۔اگر آپ نے بیان نہیں دیا تو تردید کیوں نہیں کی،عدالت کو کوئی شک نہیں کہ رپورٹر کی خبر درست ہو گی۔چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے کہا کہ ہر قیدی کا خیال رکھنا اس عدالت کی ذمہ داری ہے انصاف کی فراہمی کے حوالے سے کیا آپ نے عالمی انڈیکس کی رپورٹ دیکھی ہے ؟ ہم 126 ممالک میں سے 117 نمبر پر کیوں ہیں،اس میں عدالتوں کا معاملہ دو فیصد ہے یہ سارے کام ایگزیکٹو اتھارٹی کے کرنے کے ہیں۔ سیکرٹری قانون نے کہا تردید کرنا چاہیے تھی لیکن نہیں کی اس غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پراسیکیوشن کے تمام تفتیشی افسران کو نہ کوئی تجربہ ہے نہ ہی قانون کا پتہ ہے ،اتنی بڑی خبر آگئی، عدالت پر الزام لگ گیا، اٹارنی جنرل آفس اور وزارت قانون خاموش رہے ۔ہمارے ہاں مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہے آپ کے افسران بغیر پڑھیں بیان دے رہے ہیں ایگزیکٹو الزام عدالتوں پرلگاتی ہے ۔سیکرٹری قانون نے کہا کہ ہم اس کی تحقیقات کر کے آپ کو بتائیں گے ۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ شرمندگی کا مقام ہے ، جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی موجود ہیں نظر انداز نہیں کر سکتے ،ایگزیکٹو کام کر رہی ہوتی تو تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔عدالتوں پر الزام نہ لگائیں، یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے ۔ عدالت نے سیکرٹری قانون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو خودجا کر دیکھنا چاہیے تھا کہ جیل میں کیا ہو رہا ہے ۔ عدالت نے سماعت چوبیس اپریل تک ملتوی کردی۔