اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں میاں نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد کردی ہے۔ نوازشریف کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ان کی صحت خراب ہے، اس لیے علاج اور مناسب دیکھ بھال کے لیے ضمانت پر رہا کیا جائے۔ فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید تھی کہ ہائیکورٹ نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کرلے گی مگر ایسا نہ ہونے پر مایوسی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے ہمیشہ عدالتی فیصلوں کا احترام کیا ہے اور وہ اس فیصلے کا بھی احترام کرتے ہیں۔ قبل ازیں احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018ء کو العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کوسات سال قید اور پونے چار ارب روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔ عدالتی فیصلے میں انہیں دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ احتساب عدالت نے میاں نوازشریف کی درخواست پر انہیں اڈیالہ جیل کی بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 28 جولائی 2017ء کے فیصلے کی روشنی میں نیب کو شریف خاندان کے خلاف تین ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی۔ پہلا ریفرنس ایون فیلڈ فلیٹس کے متعلق تھا۔دوسرا ریفرنس العزیزیہ سٹیل ملز کا تھا۔ اس میں نوازشریف اور ان کے دونوں بیٹوں کو ملزم نامزد کیا گیا۔ 24 دسمبر 2018ء کو احتساب عدالت نے نوازشریف کو العزیزیہ میں سات سال قید کی سزا سنائی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا اظہار مایوسی اس لحاظ سے باعث تعجب ہے کہ اسی معزز فورم سے جب ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہائی ملی تو ن لیگ کی ساری قیادت نے اظہار مسرت کیا۔ مٹھائیاں تقسیم کیں اور عدالتی فیصلے کو قانون کی جیت قرار دیا۔ شاہد خاقان عباسی کو یہ امر ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ میاں نواز شریف کے لئے وہی قانون ہے جو باقی شہریوں کے لئے موجود ہے۔ اگر اس طرح کی طبی بنیادوں پر ضمانتیں ہوتی رہیں تو ہر زیر حراست شخص میڈیکل سرٹیفکیٹ لے کر ضمانت کا حق طلب کرتا نظر آئے گا۔ ریاست سب کے ساتھ مساوی سلوک نہ کرے تو اپنا وقار کھو دیتی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک میں کئی برس مسلسل مسلم لیگ ن کی حکومت رہی ہے۔ اپنے دور حکومت میں ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی پر توجہ دینا چاہئے تھی۔ ان ہسپتالوں میں روزانہ لاکھوں افراد علاج کے لئے آتے ہیں۔ کہیں دوا میسر نہیں اور کہیں ڈاکٹر یا طبی مشین دستیاب نہیں۔ میاں نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی دیکھ بھال ایک دو نہیں متعدد ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کے سپرد ہے۔ اس کے باوجود ن لیگی رہنما اگر مطمئن نہیں تو انہیں اپنی حکومتی کارکردگی اور مطالبات کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ یہ تفصیلات آن ریکارڈ ہیں کہ سابق وزیراعظم کو جب جب طبی امداد کی ضرورت محسوس ہوئی انہیں ماہر معالجوں کی ٹیم نے مدد فراہم کی۔ پہلے کوٹ لکھپت جیل میں ڈاکٹروں نے ان کی صحت کا معائنہ کیا۔ پھر سروسز ہسپتال کا ایک وسیع کمرہ ان کے قیام کے لیے مختص کیا گیا۔ یہاں دو بیڈ، صوفہ سیٹ، میز اور دیگر سامان رکھا گیا۔ کئی روز تک مسلسل ڈاکٹروں کی نگرانی میں رہنے اور متعدد ٹیسٹ کرانے کے بعد جب صحت تسلی بخش قرار پائی تو انہیں دوبارہ جیل منتقل کردیا گیا۔ اس دوران میاں نوازشریف، ان کے برادر خورد شہبازشریف اور ان کی دختر مریم نواز نے بیماری کے بارے میں ایک مہم چلائی۔ اس مہم میں تاثر دیا گیا کہ نوازشریف شدید بیمار ہیں اور انہیں مطلوبہ طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ جیل منتقلی کے بعد لیگی رہنمائوں نے مسلسل یہ مہم چلائی کہ نوازشریف کی حالت خراب ہے اور حکومت جان بوجھ کر انہیں علاج کی سہولیات فراہم نہیں کر رہی۔ یہ اصرار بھی کیا گیا کہ میاں نوازشریف کو لندن والے معالج کے پاس بھیجا جائے۔ اس پر انہیں جناح ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ بیماری والا معاملہ ذرائع ابلاغ میں اجاگر کرنے کے لیے ایک طرف لیگی کارکنوں کو ترغیب دی گئی تو دوسری طرف مریم نواز نے جناح ہسپتال میں داخل نوازشریف سے روزانہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ نوازشریف کو جب طبی امداد کی ضرورت پڑی جیل حکام نے وہ سہولت فراہم کی۔ ان کی بیماری کے سلسلے میں سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا گیا۔ یوں ایسے مخصوص حالات پیدا نہیں ہوئے جن میں میاں نوازشریف کو ضمانت پر رہائی دی جا سکے۔ یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ میاں نوازشریف کو دوران قید جس طرح کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اس طرح کی سہولیات پہلے کسی قیدی کو مہیا نہیں کی گئیں۔ عدالتوں نے قانونی دائرے میں رہ کر نوازشریف کو ہر وہ ریلیف دیا جس کی انہوں نے درخواست کی۔ اس ملک میں ہر اس مرض کا تسلی بخش انتظام موجود ہے جس کی شکایت میاں نوازشریف کر رہے ہیں۔ لندن کی نسبت اپنے ہاں کی طبی سہولیات پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک عدالتی نظام کی بات ہے تو میاں نوازشریف کو اسی نظام سے کئی بار انصاف ملا ہے انہیں اب بھی مایوسی کا اظہار کرنے کی بجائے عدالتی نظام پر بھروسہ کرنا چاہیے۔