اسلام آباد(خبر نگار، نیوزایجنسیاں، 92نیوزرپورٹ، مانیٹرنگ ڈیسک )چیف جسٹس پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے کہاہے کہ عدلیہ اور میڈیسن کے شعبے دونوں مقدس شعبے ہیں،ان شعبوں میں کسی دھوکے باز کی کوئی جگہ نہیں ۔عدالت میں جج کے بجائے وکیل زیادہ علم رکھتا ہے ،وکلاء ہی ججز کی معاونت کرتے ہیں ،وکلا پیسہ کمانے کی طرف نہ جائیں، لوگوں کی خدمت کریں پیسہ خود آپکے پیچھے آئیگا۔گزشتہ روز وفاقی جوڈیشل اکیڈمی میں تقریب تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پرانے وقتوں میں وکلا فیس نہیں لیتے تھے ۔ وکلا کے گائون کے پیچھے لگی ہْڈ میں لوگ پیسے ڈالتے تھے ۔ وکیل لوگوں اور معاشرے کیلئے لڑتے ہیں ،اس سے زیادہ مقدس کام اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سسٹم میں تربیت کا فقدان ہے ،یہاں کے برعکس برطانیہ میں ایک لا گریجوایٹ کو تربیت سے وکیل بنایا جاتا ہے ۔لا کالجز کی کثرت کی وجہ سے اب سینئر وکلا کی کمی ہو گئی ہے ۔اب ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں نوجوان وکلاء کی تربیت کی جا سکے ۔خواہش تھی کہ وکلاء کو ٹریننگ دی جائے جس کا جوڈیشل اکیڈمی میں اہتمام کیا گیا۔کیس لڑنے کیلئے باتوں کی نہیں محنت کی ضرورت ہے ، وکلاء کو کیس کی مکمل ریسرچ کر نی چاہئے ،ہمیں عزت اسی پروفیشن سے ہی ملی ہے ۔ کہا جاتا ہے جو بچہ باتونی ہو وہی وکیل بنے گا مگرضروری نہیں کہ یہ بات سو فیصد درست ہو،وکالت میں کامیابی کی کنجی محنت میں پوشیدہ ہے ۔وکلا اپنے کلائنٹ کیساتھ مخلص رہیں تو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی۔وکیل بننا پروفیشن ہے بزنس نہیں ، وکیل کو جذبہ کیساتھ لوگوں کی خدمت کرنی چاہئے جس کا صلہ خدا دیگا۔ ماضی میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلی لیکن اب وکلا کی عزت کی بحالی کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ وکلا نے بہت تیزی سے عزت گنوا دی ہے ۔اگر وکیل جج کو کرسی مارتا ہے اور جج وکیل کو پیپر ویٹ تو ہمیں تحریک بحالی عزت وکلا شروع کرنا ہوگی۔ عدالیہ کی عزت کا کلچر واپس لانا ہوگا۔وکیل نے بحث زبان اوردماغ سے کرنی ہے ،وکیل اورجج ایک دوسرے کو ماریں گے تو کیایہ ٹھیک ہوگا؟، ایسا فعل کسی صورت قابل قبول نہیں،عزت اوراحترام کے رشتے پرواپس آناہے ،اسی میں بھلائی ہے ۔ کبھی کسی جج کو شرمندہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔بعض اوقات جج آپکی بات سنتے سنتے سو جاتے ہیں۔جج سو جائے تو یہ مت کہیں کہ جج صاحب آپ سو گئے بلکہ روسٹرم پر کتاب سے تھوڑی سی دھمک دیں جس سے جج جاگ جائے ۔ پشاور کے سنیئر وکلا کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران میں نے انھیں تحریک بحالی عزت وکلا چلانے کی تجویز دی کیونکہ میں تحریک چلانے سے تو رہا ۔بیس سال بعد وکیل آج کی تاریخ کی روشنی میں قوانین کو دیکھے گا کہ احتساب آرڈننس میں تو ضمانت کی شق ہی نہیں تھی ۔ڈی جی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی حیات علی شاہ نے درست کہا کہ وکلا کی تربیت لازمی ہے ۔