عدم برداشت کی وحشت کو رواداری کی خوبصورتی میں کیسے بدلیں۔ گزشستہ ہفتے ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی۔ ایک بدبخت‘ وحشت کے عالم میں اپنی ماں کو بری طرح پیٹ رہا تھا۔ سچی بات ہے کہ مجھ سے تو ایک بار بھی اسے مکمل دیکھا نہیں گیا۔ ایک آدھ سیکنڈ کے بعد میں نے اسے بند کردیا۔ اس کے بعد اس خبر کا فالواپ بھی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل آتا رہا۔ بدقسمت ماں کا انٹرویو بھی سنا اور اس سین کی بات چیت بھی جس نے اس دلخراش ناقابل بیان منظر کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی۔تفصیل کے مطابق بدبخت ماں کو مارنے کا عادی تھا۔ اس کی گواہی ہمسائے کی ایک خاتون نے بھی دی لیکن کہانی میں حیرت انگیز موڑ وہ آیا جب ماں نے اس گھنائونے فعل کی ساری ذمہ داری اپنے بیٹے سے ہٹا کر اپنی بہو پر ڈال دی اور کہا کہ میری بہو مجھے مرواتی ہے۔ ماں کو مارنے والا بدبخت ایک ہی دن کے بعد جیل کی سلاخوں سے چھوٹ گیا اور ظاہر ہے سوشل میڈیا پر چند روز کے ہنگامہ کے بعد یہ واقعہ بھی ذہنوں سے فراموش ہو جائے گا ،کوئی اور واقعہ اس اندوہناک سانحہ کی جگہ لے گا اور بس سردست اس قوم کے دل میں اس وقت جو اس بدقسمت ماں کا درد جاگا ہے، وہ کوئی اور ایسی ہی ویڈیو وائلر ہونے تک ہوا ہو جائے گا۔بدترین تشدد اور عدم برداشت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں مزاجوں میں عدم برداشت‘ غم و غصہ اور وحشت ناک رویے عام پائے جاتے ہیں۔ خاندان معاشرے کی اکائی ہے۔ آپ خاندان کے نظام کے اندر دیکھ لیں‘ عدم برداشت سے لبریز رویے کیسے اپنے پیاروں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ شوہر بیوی پر تشدد کرتا ہے‘ گالم گلوچ بدکلامی سے مارپیٹ تک سب گھریلو تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ کہیں بہو اپنے سسرال میں ساس نندوں کے ہاتھوں تنگ ہے‘ کہیں مرد بھی مظلوم ہے اور بیوی کے عدم برداشت والے رویے کا شکار زندگی کو بوجھ کی طرح جی رہا ہے۔ میں نے بچوں کو بھی والدین کے نامناسب رویوں کا تشدد سہتے دیکھا ہے اور بدقسمتی سے والدین بھی اولاد کے ہاتھوں زندگی سے تنگ آتے ہوئے دیکھے ہیں۔گھر کی چار دیواری سے باہر نکلیں تو عدم برداشت اور وحشت ناک رویوں کے مناظر آپ کو ہر تصویر میں بکھرے دکھائی دیں گے۔ مدرسوں میں قرآن کی تعلیم دینے والا قاری بچے کو سبق یاد نہ کرنے پر مار مار کر ادھ موا کررہا ہے تو انگریزی میڈیم سکول استاد نویں جماعت کے طالب علم کو صرف ایک سوال کا جواب نہ دینے کی پاداش میں دیوار سے اس کے سرکو اس بے دردی سے مارتا ہے کہ طالب علم کی موت واقع ہو جاتی ہے (لاہور کے ایک انگلش میڈیم سکول میں یہ واقعہ چند ماہ پہلے پیش آیا تھا)۔ آپ کو یاد ہوگا بہاولپور میں ایک بدبخت شاگرد نے اپنے انگریزی کے پروفیسر کوسٹاف روم میں گھس کر چھریاں مار کر موت کے گھات اتار دیا تھا اور وجہ اس کی یہ تھی کہ بدبخت استاد کے نظریات سے اختلاف رکھتا تھا۔ پڑھے لکھے دولت مند مالکان‘ کمسن گھریلو ملازمائوں پر عدم برداشت کا جہنم ہے جو اس معاشرے میں جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ دفتروں‘ کمپنیوں‘ اداروں‘ فیکٹریوں‘ کارخانوں‘ مارکیٹوں‘ دکانوں میں ہر جگہ کمزور طاقتور کے عدم برداشت سے لبریز رویوں کو جھیل رہا ہے۔ ہر جگہ بے بس شخص‘ اختیار والے کے نوکیلے کٹیلے اور زہریلے رویوں کا شکار ہے۔تھانوں میں بے گناہوں پر ناقابل بیان تشدد کر کے ان سے اقبال جرم کروانے کی ہدایت بہت پرانی ہے۔ تھانوں میں اس قدر تشدد ہوتا ہے کہ جیتا جاگتا انسان بے جان لاش میں بدل جاتا ہے۔ اس نظام کو منہ چڑاتے ہوئے صلاح الدین کا واقعہ کس کو بھولا ہوگا۔ جسے تھانے میں تشدد کر کے مار دیا گیا اور وہ تشدد کرنے والے سے بھول پن سے سوال کرتا ہے کہ ’’ایک بات پوچھوں مارو گے تو نہیں۔ تم نے اتنا مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟‘‘مظلوم صلاح الدین کا یہ یہی سوال گاہے میرے ذہن میں اٹھتا اور جواب طلب کرتا ہے کہ اس معاشرے کے رہنے والوں نے اتنے وحشت بھرے رویے کہاں سے سیکھے۔کہاں سے ایسی سنگ دلی اور پتھریلے اور نوکیلے رویے مزاجوں کا حصہ بن گئے کہ آج ہم ایک دوسرے سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔ ایک انسان پر دوسرے انسان کا جو احترام اور عزت واجب ہوتی ہے ہم وہ تک دینے کو تیار نہیں ہیں۔حقائق بہت تلخ اور تکلیف دہ ہیں۔ سوال ہی سوال ہیں؟ مزاجوں میں جو عدم برداشت کا آتش فشاں ہمہ وقت ابل رہا ہے اس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ سکول کی سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ نئے مضامین کو نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے جو مثبت رویوں کی تعلیم دیں۔ غم و غصہ‘ حسد‘ انتقام کے منفی احساسات پر قابو پانے کی تکنیکس سکھائیں۔ Anger Management ایک پورا مضمون ہے، اسے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے تعلیمی نصاب میں صدیوں سے وہی گھسے پٹے مضامین شامل ہیں جو عملی میدان میں زندگی کی اونچ نیچ سے گزرتے ہوئے طالب علموں کو کوئی فائدہ نہیں دیتے۔بہت ضرور ی ہے کہ اس وقت ہمارے نصاب میں وہ مواد شامل ہو جس سے زہریلے‘ نوکیلے اور تمام منفی رویے مثبت دھارے کی طرف موڑے جا سکیں۔ مزاج اور رویوں کو سنوارنے کے لیے ہمارا مذہب جو تعلیمات دیتا ہے اس کو سکھانے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک لفظ میں اگر ہم اس کو بیان کریں تو وہ لفظ ہے تربیت۔ اس معاشرے کو تربیت کی ضرورت ہے۔ لایعنی سیاسی بحث و مباحثے کے پرائم ٹائمز پروگراموں کی جگہ ایسے پروگرام شروع کرنے چاہئیں جس سے اس معاشرے کی ذہنی تربیت مثبت سوچ کے خطوط پر ہو سکے۔ تشدد پر مبنی ویڈیو گیمز ہوں یا ٹی وی ڈرامے‘ یہ سب معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کوفروغ دیتے ہیں۔ ان کی جگہ بھی مثبت پر مبنی‘ تشدد سے پاک‘ مواد پر مشتمل ڈرامے اور گیمز کوفروغ دینا چاہیے۔جب ہر طرف سے لوگ مثبت سوچ اپنے اندر جذب کریں گے تو ان کے رویوں سے بھی مثبت سوچ منعکس ہوگی۔سیاسی مسائل کے حوالے سے ہمارے ہاں تھنک ٹینکس بنے ہوتے ہیں‘ میری خواہش ہے کہ انسانوں کی تربیت کے حوالے سے بھی یہاں تھنک ٹینکس بنیں‘ مثبت رویوں کا فروغ کیسے ہو۔ پالیسی میکرز اس پر سوچیں۔ سماجی سائنس دان اس پر کام کریں۔ تعلیمی نصاب تربیت دینے والے‘ نصاب ترتیب دیتے ہئے طالب علموں کی ذہنی ساخت بنانے اور تربیت کرنے کے مقاصد کو سرفہرست رکھیں۔ عدم برداشت کی وحشت کو برداشت اور رواداری کو خوب صورتی میں بدلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔