عید اُلفطر (روزوں کی عید) اور عید اُلاضحی ( عید قربان) کو عیدین ؔ ( دو عیدیں ) کہا جاتا ہے ۔ پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں ، مفتیان یا رویت ہلا ل کمیٹی کی شہادتوں کے مطابق ایک دِن کے بعد دوسرے دِ ن بھی عید اُلفطر منانے کا رواج ہے۔ کیوں نہ دو دِن منائی جانے والی عید کو بھی عِیدین کہا جائے ؟۔ جب متحدہ ہندوستان میں 29 روزوں کے بعد عید منائی جاتی تھی تو، مسلمان آپس میں اِس طرح کی گفتگو کرتے تھے کہ ’’ ہم ایک روزہ کھا گئے ہیں ‘‘ لیکن، اِس بار حسب سابق پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے امام مفتی شہاب اُلدّین پوپل زئی کے فتوے اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے تعاون سے صوبہ کے مسلمانوں کی اقلیتؔ دو روزے کھا گئی ہے؟اور اُنہوں نے بڑے دھڑلے سے 4 جون (بروز منگل) کو عید منائی۔ معزز قارئین!۔ مفتی منیب اُلرحمن صاحب کی چیئرمین شِپ میں رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے مطابق وفاق ، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، گلگت بلتستان اور آزاد ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں (یعنی، مسلمانوں کی اکثریت )نے 5 جون (بروز بدھ) کو عید منائی، اُن میں خیبر پختونخوا کے مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی شامل تھا۔ مَیں بھی اکثریت کے ساتھ تھا۔ اب ایک یا دو روزے کھانے والے اپنا اپنا کفارہؔ کیسے ادا کریں ؟یہ اُن کا معاملہ ہے۔ بہرحال یہ پہلا موقع ہے کہ ’’ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے اپنی ہی پارٹی ’’ پاکستان تحریک انصاف‘‘ کے خلاف عید منالی ‘‘۔ عربی زبان میں عیدؔ کے معنی ہیں ۔ ’’ مسلمانوں کے جشن (خوشی، عیش، کامرانی،) کا دِن‘‘۔ ہندی زبان میں ایسے دِن کو تہوارؔ کہتے ہیں اور انگریزی میں "Festival" کہتے ہیں ۔ "Festival" کو "Celebrate" کِیا جاتا ہے اور تہوار ؔکو ’’منانا ‘‘ کہتے ہیں ۔ ہندو ۔ اپنے تہواروں کو ہولی ؔمنانااور دیوالیؔ منانا کہتے ہیں اور ہم عید ؔمنانا۔ ہندی ، اردو اور پنجابی زبان میں ۔ روٹھے کو راضی کرنا یا منانا ؔ بھی کہتے ہیں ۔ پنجابی زبان کی ایک ترکیب ہے ۔ ’’پِیر منانا‘‘۔ یعنی۔ روٹھے ہُوئے پِیر کو راضی کرنا( ظاہر ہے، منت ترلے سے ) ۔ پنجابی کے ایک لوک گیت میں ایک الہڑ مٹیار نے اپنے ڈھول (محبوب) سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ … تیری ڈاچی دے گل وِچّ ٹلّیاں! وَے مَیں پِیر مناون چلی آں! معزز قارئین!۔ عید منانے سے پہلے ہم مسلمانوں کو نمازِ عید ادا کرنا پڑتی ہے ۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی نظم ’’شکوہ‘‘ میں پرانے دَور کے مسلمانوں کی تصویر کھینچتے ہُوئے کہا تھا کہ … آگیا عین لڑائی میں ،اگر وقتِ نماز! قبلہ رُو ہو کے ، زمیں بوس ہُوئی قوم حجاز! …O… نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندۂ نواز! ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودؔ و ایازؔ! لیکن، ’’ مصورِ پاکستان‘‘ کو کیا معلوم تھا کہ ’’ اُن کے پاکستان ؔمیں ’’محمودان / محمودون ‘‘ حکمران عید گاہوںمیں امام صاحب کی اقتداء میں "Fool proof Security" میں نمازِ عید ادا کریں گے اور اُن کی حفاظت کے لئے مسلمان محافظین ہمہ تن چوکس رہیں گے ۔ البتہ، اپنے بندہ نوؔازوں کے پیچھے ’’طبقہ ٔ ایاز ‘‘ ایک ہی صف میں کھڑا ہوگا‘‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ ’’ محمودان / محمودون ‘‘ کی سکیورٹی پر مامور مسلمان محافظین اپنی نمازِ عید واقعی قضا، پڑھ لیتے ہوں گے؟ ‘‘۔ ’’عیدملّن پارٹیاں ‘‘ معزز قارئین!۔ ہمارے پیارے پاکستان اور دوسرے ملکوں میں افطار پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں اور عید کے دِن اور اُس کے بعد عید ملّن پارٹیاں ۔ ’’محمودان / محمودون ‘‘ اپنے طبقّے کے لوگوں کے میزبان اور مہمان ہوتے ہیں ۔ انواع و اقسام کے کھانوں سے دسترخوان سجائے جاتے ہیں اور عید ملّن پارٹیوں سے باہر ’’ طبقہ ٔ ایاز‘‘ اُن کی حفاظت کرتا ہے ۔6 جولائی 2016ء کو عید اُلفطر تھی ۔ میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے ۔جنابِ آصف علی زرداری / بلاول بھٹو کی ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) "Friendly Opposition" اور سدا بہار سیاستدان ’’امیر ،جمعیت عُلماء اسلام‘‘ (فضل اُلرحمن گروپ) "Go-bteween" تو میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے’’آئے گا ایک دِن ، ہمارا بھی تو، عیدِ مُک مُکا! ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی ، جس کے چار شعر پیش خدمت ہیں … ہر سیاسی شخصیت ہے ، زر خرید ِ مُک مُکا! سب کے ماتھے پر لکھا ، خُوش آمدید ِ مُک مُکا! …O… مَیں نہیں ہُوں، غازی ٔ ماضی بعید ِ مُک مُکا! پر یہ خواہش ہے کہ ، کہلائوں شہید ِ مُک مُکا! …O… کیا ہی اچھا ہو کہ ہو ، عہدِ جدید ِ مُک مُکا! اور "Mato" اُس کا ہو ،ہل مِن مزید ِ مُک مُکا! …O… نون لیگی ، پپلیو ، جے یو آئی ، سب ہوشیار! آئے گا ایک دِن ، ہمارا بھی تو، عیدِ مُک مُکا! معزز قارئین!۔ مجھے کئی بار بیرونی ملکوں میں عِیدین ؔگزارنے کا موقع ملا۔ اکتوبر 1973ء کو مَیں اپنے مرحومین دو دوستوں جناب ِ انتظار حسین اور برادرم سعادت خیالیؔ کے ساتھ جمہوریہ تُرکیہ کے سرکاری دورے پر تھا ۔ 28 اکتوبر کو عید اُلفطر تھی لیکن، ہم انقرہ میں نمازِ عید ادا نہیں کرسکے تھے کیونکہ ہم جمہوریہ تُرکیہ کے محکمہ اطلاعات کے افسروں کی عدم توجہی کے باعث جامع مسجد تک نہیں پہنچ سکے تھے ۔ دسمبر 1986ء اور دسمبر 1987ء میں مجھے دو بار "Novosti Press Agency"۔ کی دعوت پر ’’سوویت یونین ‘‘ کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ یکم جنوری 1988ء کو مجھے جامع مسجد ماسکو میں نمازِ جمعہ سے پہلے اور امام صاحب کے خُطبہ سے پہلے مسجد میں نمازیوں سے خطاب کر کے پاکستانی مسلمانوں کی طرف سے ’’پیغامِ امن ‘‘ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہُوئی اور 25 جولائی 1988ء کو مَیں نے ماسکو کی جامع مسجد میں نمازِ عید اُلاضحی ادا کی تھی۔ ’’سِینہ چاکانِ چمن ‘‘ 2006ء سے 2016ء تک مجھے کئی بار اپنے 3 بیٹوں افتخار علی چوہان، انتصار علی چوہان ، انتظار علی چوہان اور دو پوتوں حیدر علی چوہان اور ذاکر علی چوہان کے ساتھ لندن کے علاقہ"Collires Wood" کی جامع مسجد ’’داراُلامان‘‘ میں بنگلہ دیشی امام صاحب کی اقتداء میں عید اُلفطر ، عید اُلاضحی اور جمعہ کو کئی نمازیں پڑھنے کا شرف حاصل ہُوا۔ نمازیوں میں بنگالی ، اردو اور پنجابی، بولنے والے بنگلہ دیشی، پاکستانی اور انگریزی ، فرانسیسی زبانیں بولنے والے افریقی مسلمان بھی شامل تھے ۔ نماز کی ادائیگی کے بعد مَیں جب بھی بنگلہ دیشی نمازیوں سے گلے ملا تو ، مجھے بہت اچھا لگا اور مَیں سوچتا کہ ’’ کیا کبھی ایسا بھی ممکن ہے کہ کبھی فی الحقیقت … آ مِلے ہیں ، سِینہ چاکانِ چمن سے ، سِینہ چاک! کی صُورت پیدا ہو جائے ؟۔ ستمبر 1981ء سے میرے دوست گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی مجھے کئی بار گلاسگو کی مرکزی مسجد "Central Mosque" میں نمازِ جمعہ کے لئے لے گئے، وہاں بھی جب ، مجھے بنگلہ دیشی نمازیوں سے جپّھی ڈالنے کا موقع ملا تو بہت اچھا لگا۔معزز قارئین!۔ نیویارک کے علاقہ "Long Island" کی جامع مسجد میں مَیں نے اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان اور دونوں پوتوں شاف علی چوہان اور عزم علی چوہان کے ساتھ دو بار عید اُلفطر اور تین بار عید اُلاضحی پڑھی۔ مسلمان ملکوں میں صِرف سعودی عرب اور ایران میں ایک ہی دِن عید اُلفطر اور عید اُلاضحی منائی جاتی ہے ۔ سعودی حکومت نے ’’امّ اُلقریٰ‘‘ (مکہ معظمہ ) "calendar "مقرر کر رکھا ہے ۔ اِس کے مطابق ہر دس سال کے لئے عید اُلفطر اور عید اُلاضحی کا دِن مقرر ہے، (صِرف سعودی عرب کے لئے ) ۔ مَیں نے اپنے 16 اکتوبر 2013ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ اگر مختلف ملکوں کے عُلماء اور ماہرین فلکیات مل جل کر اور حساب لگا کر اِسی طرح کا کیلنڈر تیار کرلیں تو ہر مُلک میں آباد مسلمان ایک ہی دِن عید مناسکتے ہیں ‘‘۔ اب وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری جانیں؟ مفتی منیب اُلرحمن یا مفتی پوپل زئی؟۔ میری تو ، حکمرانوں ، حزبِ اختلاف اور اشرافیہ سے یہی گزارش ہے کہ’’ آپ بے شک ہر سال مختلف دِنوں میں جتنی بھی چاہیں عِیدین منائیں لیکن، خُدارا ! ۔ پاکستان کے کم از کم 50 فی صد بھوکے اور ناراض مسلمانوں کو بھی ضرور منا لیں!ورنہ میرا ذمہ دوش پوش۔