بجٹ پر مجھے ثمینہ راجہ یاد آئی کہ ایک مرتبہ میں نے اسے ایک اداس ردیف والی غزل بھیجی تو اس نے جواب میں اسی بحر کے اندر ایک لاجواب شعر بھیج دیا: شہر میں جن کی خوش دلی آج تک مثال تھی آپ کی اس غزل نے تو ان کو اداس کر دیا اللہ جانتا ہے کہ بجٹ میں تنخواہیں نہ بڑھنے پر جتنی تعریفیں موجودہ حکومت کی ہوئی اس کی مثال ستر بہتر سالوں میں نہیں ملتی۔اس توصیف اور تعریف میں کیا کیا الفاظ استعمال ہوئے اشاعت کے لائق نہیں ویسے بھی میں کیوں بتائوں!تاہم ایک خاص بجٹ کس ضرور بڑھا دیا گیا کہ احسان کا بدلہ ضروری تھا اگر آپ پوچھیں گے کہ ادارے کا نام بتائو تو بھئی میں کیوں بتائوں میں یہ بھی کیوں بتائوں کہ بجٹ نے بنایا مگر یہ تو کوئی راز نہیں رہا کہ خود حکومت نے کہہ دیا کہ آئی ایم ایف نے۔ کہا جا رہا ہے کہ سارے مسائل ورثے میں ملے ہیں مگر مسائل پیدا کرنے والے بھی تو ورثے میں ملے ہیں۔یہ آٹا چور کون ہیں اور حکومت کے بعد ان کو کون تحفظ دے رہا ہے میں کیوں بتائوں۔ پتہ نہیں اچانک نسیم اے لیہ کا ایک شعر یاد آ گیا جو مرحوم نے خود ہمیں ایک ادبی محفل میں سنایا تھا: توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا بے ساختہ سرکار ہنسی آ گئی مجھ کو یقین مانیے کہ میں بجٹ کی ابجد سے بھی واقف نہیں کہ ہندسوں کے گورکھ دھندا سے میرے جیسے شاعر نے کیا لینا، کہ جس کی میٹرک میں حساب کی سپلی تھی۔ ویسے بھی مشاق احمد یوسفی نے جو جھوٹ کی اقسام بتائی تھیں اس میں بھی آخری درجے کا جھوٹ بجٹ کے اعداد و شمار ہی ہے پھر یہ حفیظ شیخ تو ہمیں زبانی یاد ہو گیا ہے کہ یہ ہر حکومت کو ورثے میں ملتا ہے جو بھی اس بجٹ سے لوگ خوش نہیں ہیں مگر کیا کیا جائے عمران خاں بھی کیا کرے کہ اس جیسا دور اندیش لیڈر کس کو ملے گا۔ وہ تو بہت پہلے بتا چکا تھا کہ چین اور سکون تو صرف مرنے کے بعد ہی ملے گا۔ اس کے وزیر اسد عمر نے بھی سنگت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔ اب تو بے چارے اتنے بے سدھ ہو گئے ہیں کہ چیخ بھی نہیں نکلتی۔ ویسے ان دنوں بھی خان صاحب اموات کے خدشات ہی کا ذکر رہے ہیں۔ جو بھی ہے ہم نے تو اس لیڈر سے محبت کی تھی: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ ابھی میں ایک نہایت دلچسپ خبر پڑھ رہا تھا کہ بھارت کے ایک شہری نے آدھی جائیداد دو ہاتھیوں کے نام کر دی۔ میں اس خبر پر دیر تک ہنستا رہا کہ ہم تو سب کچھ ہی ہاتھیوں کے نام کر چکے ہیں اور یہ ہاتھی بھی عام نہیں ہیں‘جو ہمیشہ ہم سے ہاتھ کر جاتے ہیں ویسے بھی کہتے ہیں ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ اگر آپ ایسا نہ کریں تو ہاتھی آپ کے پائوں پر پائوں رکھ سکتا ہے اور یہ پائوں آپ پر آ گیا تو آپ سانس بھی نہیں لے سکیں گے۔ دو ہاتھیوں سے دو ہاتھیوں کی لڑائی والا محاور ا بھی ذہن میں آ گیا کہ جس میں فصل پائمال ہوتی ہے ویسے بھی ہاتھی پالنے آسان نہیں ہمیں خاص طور پر سفید ہاتھی۔ تو میرے پیارے قارئین میں کوئی ہاتھی پر مضمون نہیں لکھ رہا۔ یہ تو برسبیل تذکرہ کچھ لکھا گیا کہ ہاتھی ہمارے ساتھی ۔ ابھی میں تاجروں کے آرا دیکھ رہا تھا کہ اکثریت نے اس بجٹ کو انتہائی غیر معقول بجٹ کہا ہے۔ غالباًنامعقول بھی اسی کو کہتے ہیں تاجروں کا کیا ہے وہ تو کبھی گھاٹے میں نہیں جاتے کہ ٹیکس پڑتا ہے تو وہ اپنا ذاتی ٹیکس بھی شامل کر کے اشیا کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ سرکاری ملازمین یا دوسرے تنخواہ دار ہی خربوزے ہیں جنہیں ہر صورت میں کٹنا ہے۔ چھری کوئی بھی ہو۔ جس روز کہا گیا تھا کہ تنخواہوں میں کٹوتی کا آئی ایم ایف نے کہا تو خان صاحب نے مطالبہ رد کر دیا۔ تب ہی چھٹی حس نے کہا تھا کہ تنخواہیں نہ بڑھانے کا منصوبہ ہے۔ اب بھی اگر سرکاری ملازمین شور مچائیں گے تو خان صاحب ان پر احسان عظیم کرتے ہوئے کچھ اعلان کر ہی دیں یا پھر یہ بھی خوش فہمی ہی ٹھہرے۔ ہائے ہائے خاں نے ہمارا کیا حال کر دیا ہے اتنی بڑی سزا اور مسلسل۔ آپ نے تو دشمنوں کو رلانا تھا وہ باہر بیٹھے آپ پر ہنس رہے ہیں اور ہم جو آپ کو بڑے چائو سے لائے تھے رو رہے ہیں: وہ یہ کہتا ہے کہ کیا میں نے بگاڑا تیرا ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے اچھا خاصہ ہنگامہ کیا اور چور چور کے نعرے لگائے۔ کتنی عجیب صورت حال ہے کہ جنہیں چور چور کہہ کر پی ٹی آئی حکومت میں آئی اب وہی چور چور ان کو کہا جا رہا ہے۔ مجھے آمنہ الفت کی بات یاد آئی کہ مجھے بتانے لگیں کہ شاہ صاحب وہ اشعار جو آپ نے ہماری ق لیگ کے خلاف لکھے تھے وہی اب میں ن لیگ کے خلاف پڑھتی ہوں تو اسمبلی میں مجھے بہت داد ملتی ہے ایک شعر ہم لکھ دیتے: اس نے چوروں سے سرعام شراکت کی ہے اس نے قاتل کو بھی مسند پہ بٹھا رکھا ہے تو صاحبو یہ سب کچھ چلتا ہے۔ دیکھیے دو شعبے ہیں جہاں حکومتوں کو خرچ کرنا چاہیے تعلیم اور صحت۔ خاص طور پر ان دنوں صحت نمبر ون پر آئے گی کہ وبا نے ہمیں آن گھیرا ہے اور اس وبا کے پردے میں کئی وبائوں نے اپنا کام دکھایا ہے اور اپنی ساری ناکامیاں اور خامیاں چھپا لی ہیں۔ ہمارے دوست رحمان فارس نے لکھا ہے کہ دیکھیے وفاقی بجٹ 1289ارب روپے کا ہے جبکہ صحت کے لئے 30ارب روپے رکھے گئے ہیں پھر اس نے اس پر سخن طرازی بھی کر دی: میں یاد دلا دوں تو اگر بھول گیا ہو درپیش ابھی جنگ نہیں عہد وبا ہے مگر کیا کریں خان صاحب کے لئے تو یہ عہد وفا ہے اور وہ اتنے بھی بھولے نہیں آخری بات یہ کہ نکتہ آفرینی کرتے ہوئے کسی نے کہا کہ شکر ہے تنخواہ نہیں بڑھی ۔ پچھلی مرتبہ بڑھی تھی تو ٹیکس کے چکر میں تنخواہیں کم ہو گئی تھیں۔ ہائے ہائے: شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا