اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدہ کوئی حیران کن امر نہیں۔ پچھلے دو ڈھائی برسوں میں خلیجی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان خاصا کچھ آگے بڑھا تھا، کچھ سامنے اور زیادہ تر پردے کے پیچھے۔ اب مصر اور اردن کے بعد متحدہ عرب امارات تیسرا عرب ملک بن گیا جس نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر لیا۔ اگلے مراحل میں توقع ہے کہ’’ بحرین‘‘ یہ سعادت حاصل کرے گا۔ اس کے بعد کویت اور پھرغالباً سعودی عرب کی باری آئے۔ یہ ممکن نہیں کہ سعودی عرب سے مشاورت کے بغیر متحدہ عرب امارات نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہو۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب شائد اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم نہ کرے ، مگر غیر رسمی طور پر خاصی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس پر بات کرنے سے پہلے اسلامی دنیا پر نظر ڈالیں۔ اس وقت دو بڑے بلاک واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ ایران اور اس کے زیراثر شیعہ عرب ممالک عراق، شام اور لبنان کی حزب اللہ، یمن کے باغی حوثی قبائل۔ فلسطینی حماس گو سنی تنظیم ہے، مگر یہ بھی ایران کے خاصا قریب ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے زیراثر سنی عرب بلاک ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت ، یمن(عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت)، مصروغیرہ۔ یہ دونوں بلاک ایک دوسرے کے سخت مخالف اور جنگ وجدل کی طرف مائل ہوچکے ہیں۔قطر نے اپنے آپ کو سعودی عرب کے بلاک سے نکال کر الگ کیا ہے، حالات اسے ایران کی قربت میں لے گئے ہیں، مگر وہ ایرانی بلاک میں باقاعدہ طور پرشامل نہیں۔ پاکستان تاریخی طور پر عرب اور ایرانی بلاک سے باہر رہا ہے۔1980ء کے عشرے میں ہونے والی عراق ایران جنگ میں پاکستان تمام تر دبائو کے باوجودغیر جانبدار رہا۔پاکستان کے سعودی عرب، امارات، کویت وغیرہ سے قریبی تعلقات ہیں، سعودی عرب کی عسکری مدد میں بھی وہ پیش پیش رہا ، مگر یہ سب کچھ ایران سے تعلقات کی قیمت پر نہیں کیا گیا۔ پاکستان بطور ہمسایہ ایران کی اہمیت کو سمجھتا ہے ۔اب بھی یہی پالیسی برقرار رہے گی۔ مسلم دنیا میں ایک تیسرا بلاک بھی تشکیل پا چکا ہے ۔ ان میں ترکی، قطر، ملائشیا سرفہرست ہیں۔ پاکستان کی فطری پوزیشن اس تیسرے بلاک میں بنتی ہے، مگر یہاں بھی بعض نزاکتیں ملحوظ رکھنا ہوں گی۔ اس بلاک کا ایک تاثر اینٹی سعودی عرب ہے، اس کی بڑی وجہ ترکی ہے جس نے کھل کر اینٹی سعودی عرب موقف اپنایا ۔دوسری وجہ قطر ہے، جس کا سعودی بلاک نے اقتصادی اور سماجی مقاطعہ کرنے کی کوشش کی۔ ایران اور ترکی کی مدد سے قطر نے اپنی سلامتی یقینی بنائی۔ پاکستان غیر مشروط طور پر اس تیسرے بلاک میں بھی شامل نہیں ہوسکتا ۔پاکستان کو اپنے لئے نئی اپشنز کھوجنی ہیں، مگرکسی بھی مسلم بلاک کو مخالف بنائے بغیر۔ جہاں تک اسرائیل سے تعلقات کا معاملہ ہے، ہمیں عجلت کی ضرورت نہیں۔ بہترین حکمت عملی انتظارکرنا (Wait & See) ہے۔ہمارا موقف اصولی ہے۔ ہم فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم سے زیادہ کون ان کے دکھ کو سمجھ سکتا ہے؟ جو کچھ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے ساتھ کیا، وہی کچھ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کیا ہے۔ افسوس کہ فلسطینی تنظیم پی ایل ا و نے کھل کر مسئلہ کشمیر کی حمایت کرنے سے گریز کیا ،مگر اس سے ہماری اخلاقی، اصولی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم دنیا کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ صرف بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات اور مفادات کو نہ دیکھیں اور اپنے ضمیر کی آواز پر کشمیری عوام کی حمایت کریں۔ہم چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک المیہ کشمیر پر بھارت کی مذمت کریں۔ ہم کس طرح اسرائیل سے ممکنہ مالی مفادات کی خاطر المیہ فلسطین نظرانداز کر سکتے ہیں؟ کشمیر کاز ہمیں فلسطین جیسے مسائل پر مظلوموں کی حمایت کرنے پر اکساتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں آج ضمیر، اخلاقیات وغیرہ کی زیادہ اہمیت نہیں رہی، مگر بہرحال یہ دنیا سے ناپید نہیں ہوگئیں۔ملائشیا اور ترکی جیسے ممالک بھی ہیں، جنہوں نے ہمیں ترجیح دی۔ ملائشیا نے کشمیر کاز کی حمایت کی، اگرچہ اسے بھارت کو پام آئل کی کئی ارب ڈالر کی برآمدات سے ہاتھ دھونا پڑے، ترکی بھی بھارت سے قریب ہو کر تجارتی فوائد اٹھا سکتا ہے، مگر ترکی نے پاکستان کو ترجیح دی۔ ہمیں بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی پالیسیوںمیں ایڈجسٹمنٹس کرنا ہیں، مگر یوٹرن کی ضرورت نہیں۔ ہم آئندہ برسوں میں چین ، روس، ایران، ترکی کے زیادہ قریب جا سکتے ہیں، ایسا کرتے ہوئے ہمیں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں۔نئے دوست بنانے کے لئے پرانے دوستوں کو دشمن بنانے کی کیا تک ہے؟ہمیں دیکھنا چاہیے کہ امارات کے بعد کتنے اور ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہیں، نظر رکھی جائے کہ ایسا کرنے سے فلسطینی عوام کو کیا فائدہ پہنچا؟اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ ابھی ہماری میز پر نہیں ہے، اسے پینڈنگ لسٹ ہی میں پڑے رہنا چاہیے۔ ہمارے لئے اصل چیلنج سعودی عرب، ایران اور ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ہے۔چین کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ کو امریکہ دشمنی میں بدلے بغیر چلانا ہے۔ یہ کوئی معمولی چیلنج نہیں۔ ہمارے سول ملٹری ماہرین کے لئے دن رات کام کرنے کے دن آ چکے ہیں۔ بیسٹ آف لک۔ یوم آزادی پر سوشل میڈیا کے مباحث فیس بک کی دنیا میں یہ دیکھا کہ اگرکوئی دن سکون سے گزر گیا تو اس رات فیس بک صارفین’’ تڑپتے ‘‘رہتے ہیں، نیند نہیں آتی۔ ان کی یہی کوشش ہوتی کہ پنجابی محاورے کے مطابق ہر روز نیا کٹا کھل جائے اور پھراسے باندھنے کے چکر میں شام بیت جائے ۔ اس بار یہ بحث ہوئی کہ پاکستان چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب کو آزاد ہوا ، مگر ہم اپنا یوم آزادی چودہ اگست جبکہ بھارت میں یہ پندرہ اگست کو منایا جاتا ہے، آخر کیوں؟ایک دوسرا سوال ہمار ے ایک ٹیلنٹڈصحافی دوست نے اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم کا اصل نام محمد علی جناح تھا تو انہیں قائداعظم کے بجائے جناح لکھنا یا کہنا غلط کیسے ہوگیا؟ اس پر ممتاز محقق اورماہر پاکستانیت محترم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب سے بات کی۔ اللہ ڈاکٹر صاحب کو صحت کے ساتھ لمبی عمر دے، ان کا وجود ہم جیسے طالب علموں کے لئے غنیمت ہے۔ چند سال پہلے یہ ایشو اٹھایا گیا کہ پاکستان کا اصل قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا جو ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتا رہا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے تحقیق کر کے اس بے بنیاد دعوے کی دھجیاں اڑا دیں۔ڈاکٹر صاحب ون مین آرمی ہیں۔بہت سے ایسے شگوفوں ، فتنوں کی انہوں نے اپنی تحقیق کے ذریعے سرکوبی کی۔ اسی وجہ سے ہماری لبرل، سیکولر لابی ان کا نام سن کر ہی تلملانے لگتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ،’’ بے شک پاکستان کی آزادی کا باضابطہ اعلان چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب ہوا، مگر چودہ اگست ہی کو کراچی میں دستور ساز اسمبلی سے مائونٹ بیٹن نے یونین جیک اتار لیا تھا، قائداعظم نے وہاں پر پاکستانی جھنڈا لہرا دیا۔یاد رہے کہ دو دن پہلے دستور ساز اسمبلی اس جھنڈے کی منظوری دے چکی تھی۔ کراچی میں نیول بیس پر بھی چودہ اگست کو پاکستانی جھنڈا لہرا دیا گیا تھا، اسی دن پاکستان کے علاقوں میں خوشیاں منانا شروع ہوگئی تھیں، کئی شہروں میں( ہنگامی بنیاد پر )پاکستانی جھنڈے بنا کر لہرا دئیے گئے، اس لئے ایک لحاظ سے پاکستان چودہ اگست ہی کو آزاد ہوگیا تھا۔ بعد میں دستور ساز اسمبلی ہی نے فیصلہ کیا کہ پاکستان اپنا یوم آزادی ہر سال چودہ اگست کو منائے گا۔بانی پاکستان قائداعظم کی منظوری کے بعد اس پرعملدرآمد ہوگیا۔اسی لئے 1948ء میں چودہ اگست ہی کو یوم آزادی منایا گیا، قائداعظم نے بطور گورنر جنرل یوم آزادی پر اپنا باضابطہ بیان چودہ اگست کی صبح ہی جاری کیا۔اسی طرح یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ گیارہ اگست 47ء کو قائداعظم کے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کے اگلے روز دستور ساز اسمبلی نے اجلاس میں طے کیا کہ پاکستان میں محمد علی جناح کی جگہ قائداعظم کا لفظ استعمال ہوگا،اسکے بعد سرکاری کاغذات میں یہی نام چلا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اردو لکھنے والوں نے ہمیشہ قائداعظم ہی لکھا ، انگریزی والوں میں سے کچھ البتہ جناح لکھتے رہے ۔ ماڈرن کہلانے کا شوق یا پھر انگریزی کی مخصوصی لسانی روایت کی پیروی۔ اردو بولنے، لکھنے والوں میں سے صرف وہ قائداعظم کی جگہ جناح لکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کاتعلق کانگریسی باقیات سے ہے، جسے تحریک پاکستان، قیام پاکستان سے اختلاف اور جو اپنے تعصب آمیز ذہن کی وجہ سے بانی پاکستان کو قائداعظم کہنے سے گریز کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ اب یہ پاکستان میں طے شدہ علمی، ادبی ، صحافتی روایت ہے۔ سوال یہ ہے کہ تہتر برسوں سے ایک متفق شدہ قومی ایشو میںکیڑے کیوں نکالے جائیں؟ قومی ترانے پر اعتراض، کبھی یوم آزادی کو مشکوک بنانے کی کوشش، قائداعظم کے لفظ پر اعتراض ، کبھی بانی پاکستان کی وفات پر سازشی تھیوری گھڑ لی جائے ، کبھی مادر ملت فاطمہ جناح کی طبعی موت پر سوال ،… سوچنا چاہیے کہ ہم کس جانب جا رہے ہیں؟ آج اور آنے والے کل کے گمبھیر مسائل کو چھوڑ کر ہم طے شدہ ، متفقہ معاملات کو بحث کا موضوع بنائیں گے تو قوم کنفیوژن کا شکار ہی رہے گی۔