اپنی بات کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سرائیکی وسیب کو محروم اور پسماندہ رکھنے میں جہاں وسیب کے جاگیرداروں کا ہاتھ ہے وہاں میاں نواز شریف اور میاں شہبازشریف نے اپنے طویل اقتدار کے دوران وسیب کو پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نئے صوبے کی راہ میں بھی وہ رکاوٹ بنتے آئے ۔ لیکن آج جبکہ پورا شریف خاندان مصائب کا شکار ہے اور میاں نواز شریف سخت علیل ہیں تو ہم ان کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں اور ہماری حکومت سے یہ بھی درخواست ہے کہ اگر علاج پاکستان میں ممکن نہیں تو ان کو بلا تاخیر بیرون ملک علاج کیلئے بھیجا جائے ۔ آج پورے ملک میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا چرچا ہے۔ مولانا صوبہ سندھ کی پناہ میں ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ سکھر سے مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو حکومت کے خلاف آزادی مارچ میں شریک ہو ںگے ۔ دوسری طرف حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے جلوس کو نہیں روکا جائے گا ۔گزشتہ روز آزادی مارچ کے حوالے سے ہونے والے حکومت اور رہبر کمیٹی کے مذاکرات کے دو ادوار ہوئے اور دونوں بے نتیجہ رہے ۔ ذرائع کے مطابق رہبر کمیٹی نے وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ نہ کیا البتہ دھرنے کے مقام پر بات چیت ہوئی، اپوزیشن نے ڈی چوک ، جناح ایونیو اور چائنا چوک کے آپشن دیئے تاہم حکومت پریڈ گراؤنڈ کے علاوہ کسی اور مقام پر راضی نہ ہوئی۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ حکومت کسی سے خوف زدہ نہیں ۔ عدالتی فیصلے کے مطابق لانگ مارچ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ۔ اپوزیشن والے آئین و قانون کے مطابق آئیں گے تو میزبانی کریں گے۔ دباؤ یا پریشر میں نہیں آئیں گے۔ وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے اور دھرنے کے موقع پر کسی طرح کے انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اِدھر مولانا فضل الرحمن بھی مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے کے لئے تیار ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت سکھر میں ہوا، اجلاس میں اکرم درانی ، عبدالغفور حیدری ، راشد محمود سومرو ،عامر غوری اور دیگر مرکزی قائدین نے شرکت کی ۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آزادی مارچ شیڈول کے مطابق 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہو گا، تاریخ میں کوئی رد و بدل کا امکان نہیں تاہم واپسی کا فیصلہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کرے گی ۔ آزادی مارچ ہو کر رہے گا۔ لوگ پیدل ، خچروں پر بھی آئیں گے، حکومت کے خاتمے کیلئے دو ماہ تک اسلام آباد میں رہنا پڑا تو رہیں گے ،عمران نے استعفیٰ نہ دیا تو قوم لے لے گی۔ جب ن لیگ برسر اقتدار تھی تو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم عمران خان ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے ۔ تحریک انصاف کا دھرنا چل رہا تھا۔ عمران خان کا اصل تعلق میانوالی اور میاں نواز شریف کا تعلق لاہور سے تھا ۔ آج عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ۔ دونوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے ، میانوالی اور دیرہ اسماعیل خان ملحقہ اضلاع ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان 1952ء میں لاہور میں پیدا ہوئے لیکن ان کا اصل تعلق میانوالی سے ہے ۔ 1996ء میں انہوں نے تحریک انصاف قائم کی اور 1997ء کے عام انتخابات میں اس بنیاد پر حصہ لیا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کرپٹ جماعتیں ہیں اور تحریک انصاف عام آدمی کو انصاف فراہم کرے گی ۔ عمران خان کی سابقہ کرشہرت کرکٹ کے حوالے سے ہے ۔ ان کو عالمی سطح پر 1992ء میں اس وقت پذیرائی حاصل ہوئی جب انہوں نے بحیثیت کپتان ورلڈ کپ جیتا ۔ عمران خان کا دوسرا بڑا کارنامہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی تعمیر ہے۔ عمرا ن خان کا پوری دنیا میںایک نام ہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ، جس کے باعث نام بدنام ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کے ایک سال بعد یعنی 1953 ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے اور اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات اکتوبر 1980 ء کے بعد جمعیت کے سربراہ بنے ۔ نومبر 1988 ء اور اکتوبر 1990 ء میں دیرہ اسماعیل خان کے حلقہ انتخاب سے جمعیت کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت اکتوبر 1993 ء تا نومبر 1996 ء امور خارجہ کمیٹی کے چیئرمین رہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن کو دیرہ اسماعیل خان نے بہت کچھ دیا مگر مولانا نے ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کیلئے کوئی اقدامات نہ کئے ۔ خود مولانا مفتی محمود صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بھی رہے مگر آج بھی ڈیرہ اسماعیل خان وہ بے نصیب شہر ہے جہاں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہونے کے باوجود سیوریج سسٹم تک نہیں ہے۔ اپنی جگہ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مولانا صاحبان الیکشن کے وقت سرائیکی میں تقریریں کرتے ہیں ، ایک صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں اور سرائیکی بن جاتے ہیں مگر الیکشن کے بعد ان کی تمام تر ہمدردیاں افغانستان ، فاٹا اور خیبرپختونخواہ کے پشتونوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ عمران خان کا پورا قبیلہ نہ صرف سرائیکی ہے بلکہ میانوالی کے نیازی خاندان کو محسن سرائیکی کا لقب حاصل ہے ۔ میانوالی واحد ضلع کونسل ہے جس نے سب سے پہلے 1982ء میں ایک صوبے کی قرارداد پاس کی تھی ۔ ڈاکٹر شیر افگن نیازی صوبے کے نعرے پر ہی ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے اور انہوں نے پوری زندگی اس مقصد کیلئے وقف کی ۔ عطا اللہ خان نیازی کا نام کون نہیں جانتا ؟ انہوں نے سرائیکی ثقافت کے فروغ کیلئے سب سے زیادہ کام کیا ۔ عمران خان نے کراچی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے والد سرائیکی ہیں اور والدہ مہاجر ۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کی ہمدردیاں بھی وسیب سے کم اور پشتونوں سے زیادہ ہیں اور ان کا قلبی جھکاؤ پشتونوں کی طرف ہے ۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان محض نسلی طور پر پشتون ہیں مگر ثقافتی اور جغرافیائی حوالے سے ان کا تعلق سرائیکی وسیب سے ہے کہ انسان جہاں رہتا ہے ، اس کا وطنی حوالہ وہی خطہ بنتا ہے۔ اپنی دھرتی ،اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت عین فطری تقاضا ہے۔ جبکہ نسلی تفاخر زمانہ جہالیت کی یادگار ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے بارے میں سوچا جائے کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے ۔ بھارت پاکستان دشمنی پر کمر بستہ ہے، بھارت کے عزائم میں ملانا ضروری ہے۔