خلیجی ممالک اور اسرائیل ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔اس قربت میں ان پاکستانیوں کے لیے بہت بڑا چیلنج موجود ہے جو خلیجی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ ذرا سی غلطی اور جذباتیت ان محنت کش پاکستانیوں کے لیے ایسا بحران پیدا کر سکتی ہے جو پاکستانی معیشت کی چولیں ہلا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا وزارت خارجہ اور اوورسیز کی وزارت کو اس ابھرتے چیلنج کی سنگینی اور معنویت کا کچھ احساس ہے اور کیا اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے ہم نے کسی بھی سطح پر کوئی تیاری کر رکھی ہے؟ سید کلیم اللہ بخاری تحریک انصاف دوبئی کے سیکرٹری جنرل ہیں ۔آج وہ ملنے تشریف لائے تو اس چیلنج کا انہوں نے ذکر کیا۔ ان کی بات سنی تو احساس ہوا دائیں بائیں کیسے کیسے مسائل، ہمیں گرفت میں لینے کو تیار کھڑے ہیں اور ہم یہاں داخلی سیاست کی دلدل سے ہی نہیں نکل پا رہے۔ بخاری صاحب کا کہنا تھا! یو اے ای اور اسرائیل ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ یہ قربت اپنے ساتھ معاشی امکانات بھی لا رہی ہے۔ تیل کی دو لت کو ابھی زوال نہیں آیا لیکن معاملات اسی طرف جا رہے ہیں،جہاں تیل کی بنیاد پر کوئی ریاست معاشی خود کفالت سے لطف اندوز نہیں ہو سکے گی۔ کورونا کی وبا نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی کمر اگر توڑی نہیں تو اس پر کاری ضرب ضرور لگائی ہے۔ ان حالات میں خلیجی ممالک معاشی امکانات کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اور اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنا بھی محض ایک سفارتی اقدام نہیں ہے بلکہ خاصے بھاری بھرکم معاشی امکانات بھی اس کے ہمراہ ہوں گے۔ اسرائیل خلیجی ریاستوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ اس سرمایہ کاری کا حجم خاصا بڑا ہو سکتا ہے۔ خلیجی ریاستیں اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہی ہیں،تو وہ کچھ بنیادی فیصلے کر چکی ہوں گی اور اس باب میں زیرو ٹالرینس کے اصول کو اپنایا جائے گا۔ ان میں یہ بات سر فہرست ہو گی کہ اسرائیل اور اسرائیلی سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے تاکہ سرمایہ ان کے ملک کا رخ کر سکے۔خلیجی ریاستوں میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ملازمت پیشہ ہے۔انکے لیے اس معاشی ڈیولپمنٹ میں ایک بہت بڑا چیلنج ابھر رہا ہے اور اس کے ابتدائی نقوش واضح ہیں۔ اسرائیل کے بارے میں ہمارے ہاں ایک واضح موقف ہے اور اسی موقف کے زیر اثر یو اے ای اور خلیجی ریاستوں کی اس نئی پالیسی پر عام آدمی شدید تنقید کر رہا ہے ۔یہ تنقید سوشل میڈیا پر بھی ظہور کر رہی ہے اور سوشل میڈیا پر ہونے والی اس تنقید میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو یو اے ای اور دیگر خلیجی ریاستوںمیں مقیم ہیں۔ اس صورت حال میں دو طرح کے خدشات جنم لے سکتے ہیں۔ اول: خلیجی ریاستوں میں مقیم پاکستانی سوشل میڈیا پر وہ ’’ ریڈ لائن‘‘ کراس کر جائیں جو میزبان ممالک کو بد مزہ کر دے۔ وہاں کے عمال حکومت اور شاہی خاندان کے لوگ نہ صرف سوشل میڈیا پر موجود ہیں بلکہ اس کی مانیٹرنگ بھی ہوتی رہتی ہے۔حال ہی میں چند بھارتیوں نے سوشل میڈیا پر وہ لائن کراس کی تو شاہی خاندان کی جانب سے شدید رد عمل آیا اور اس کی تپش بھارت میں بھی محسوس کی گئی۔ تواگر وہاں مقیم پاکستانیوں نے جذبات میں کوئی مہم برپا کر دی تو اس پر بھی رد عمل آ سکتا ہے اور اس کی زد میں پوری کمیونٹی بھی آ سکتی ہے۔ دوسرا خد شہ زیادہ سنگین ہے اور اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ بھارت کی جانب سے اس خدشے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فنڈنگ کی جائے ۔خطرہ یہ ہے کہ اسرائیلی افرادی قوت جب خلیجی ریاستوں میں آئے گی، تو ان سے تو تکار یا تصادم یا ان کے خلاف کوئی اقدام ایسا نہ ہو جائے جس میں کسی پاکستانی پر انگلی اٹھے یا وہ ملوث ہو۔ ایسا ہوا تو پاکستانیوں کو ’’ ٹربل میکر‘‘ اور درد سر سمجھ کر دھیرے دھیرے ان کی تعداد میں کمی لائے جائے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے مزید پاکستانیوں کو ملازمت ہی نہ دی جائے یا دی جائے تو بہت کم تا کہ مقصد بھی حاصل ہو جائے اور سفارتی سطح پر ایشو بھی نہ بنے ۔ ان ریاستوں نے صرف وزٹ ویزہ پاکستانیوں کے لیے محدود کر دیا تو ہماری افرادی قوت کے معاشی امکانات سکڑ جائیں گے کیونکہ اکثریت اب وزٹ ویزے پر وہاںجاتی ہے تب اسے کوئی روزگار اسے ملتاہے۔ میں نے سوال کیا کہ پورے یورپ میں پاکستانی موجود ہیں اور اسرائیلی بھی ۔ جب یورپ میں ایسا کچھ نہیں ہو ا تو خلیجی ریاستوں میں آپ کو ایسا خطرہ کیوں محسوس ہو رہا ہے؟ بخاری صاحب کا جواب تھا کہ یورپ میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے جب کہ خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت ان پڑھ ہے اور وہ زیادہ تر لیبر کا کام کر رہی ہے۔ چونکہ اس طبقے میں جذباتیت زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس بات کا یہاں خطرہ موجود ہے کہ شدت جذبات میں کچھ غلط نہ ہو جائے یا ان میں سے کسی کو بھارت استعمال نہ کر لے یا یہ کہ وہ تو سرے سے ایسے کسی کام میں ملوث ہی نہ ہوں لیکن دشمن کوئی واردات کر دے اور سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کے عمومی بیانیے کی وجہ سے انگلی ان پر اٹھنا شروع ہو جائے۔ معیشت پاکستان کا کمزور پہلو ہے اور خلیجی ریاستوں میں مقیم پاکستانی ہماری معیشت کے لیے بہت اہم ہیں۔ بھارت تو چاہے گا یہاں سے پاکستان کے معاشی امکانات سکڑتے چلے جائیں اور جو خلا پیدا ہو اسے بھارت کی افرادی قوت سے بھرا جائے۔ یہ معمولی پہلو نہیں،انتہائی اہم پہلو ہے۔پاکستان کو اس مسئلے کو ابھی سے دیکھنا ہو گا۔ سفارت خانوں کو پاکستانی کمیونٹی کو انگیج کرتے ہوئے کمیونٹی کونسلنگ کرنا ہو گی۔ ہمارا موقف جو بھی ہو ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ہر نیشن سٹیٹ اپنے مفادات کی روشنی میں ایک موقف اختیار کرتی ہے اور ہم جس ریاست میں روزگار کے لیے مقیم ہوں،ہمیں اس ریاست کے اس حق کو تسلیم کرنا ہو گا ۔بلاوجہ کی تنقید اور اس میں شدت دشمن کو وار کرنے کا موقع دے گی اور دشمن اس پر تلا بیٹھا ہے۔ ہماری ذرا سی غلطی کو پہاڑ بنا دیا جائے گا اس لیے ہمیں کسی بھی غلطی سے بچنا ہے۔خلیجی ریاستوں میں وقت کا موسم بدل چکا ہے۔ہمیں اس تبدیلی کو سمجھنا ہو گا۔ورنہ ہم اپنا ہی نقصان کریں گے۔