’’باہمی تعلقات پر کسی تیسرے ملک کو اثر انداز نہیں ہونے دینگے ۔‘‘ وزیر اعظم پاکستان نے ،اپنے حالیہ دورئہ ایران کے موقع پر ، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر حسن روحانی سے ملاقات کے بعد ،ایک مشترکہ بیان کے ذریعے اس امر کا اعادہ کیا ۔ ایران کا خشکی کی سطح پر، سب سے طویل بارڈر پاکستا ن کے ساتھ، جبکہ بحری سطح پر ’’خلیج عرب میں‘‘طویل ترین سرحد سعودی عرب کے ساتھ ، بحیرہ عرب کی اس خلیج کو سعودی عرب’’ خلیج عر ب‘‘ جبکہ ایران اس کو ’’خلیج فارس‘‘ سے موسوم کرنے کے خواہاں رہتے ہیں ۔ ’’خلیج ‘‘ بنیادی طور پر سمندر کے اس حصے کو کہتے ہیں ،جس کے تین طرف خشکی اور ایک طرف پانی ہو ۔ دنیا کی معروف خلیجوں میںبرصغیر کی خلیج بنگال ، امریکہ کی خلیج کیلیفورنیا ،خلیج عمان ،خلیج عدن وغیرہ بطور خاص اہم ہیں۔ اسی خلیج عرب کے ارد گرد خلیجی ممالک ،جن میںسعود ی عرب ،بحرین ،کویت ،، عراق ،متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ شامل ہیں،جنہوں نے ملکر ’’Gulf Cooperation council‘‘ (خلیجی تعاون کونسل )نے نام سے ایک فورم بنا رکھا ہے ، جس پرسعودی عرب کا سب سے زیادہ اثر ورسوخ ہونا…ایک فطری بات ہے ۔ عرب دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما ہے ،جس کا کل رقبہ 11لاکھ ،60ہزار مربع میل ہے ،جس میں مذکورہ خلیجی ریاستوں کے علاوہ یمن بھی شامل ہیں ،جو ایشیا ء کے جنوب مغربی کونے میںواقع ہے۔جس کے مشرق میں خلیج فارس اور خلیج عمان ،مغرب میں بحر احمر ،جنوب میں بحر ہند اورخلیج عدن اور چوتھی طرف عراق ،شام اور اُردن وغیرہ ہیں ، ہر چند ایشیاء میں اس کا محل وقوع علیحدگی اور انقطاعی تاثر لیئے ہوئے ہے ، مگر ’’ بین البرّاعظمی‘‘ حیثیت میں ،یہ سرزمین ایشیا ،افریقہ اور یورپ کے درمیان ’’نقطہ ماسکہ‘‘ یعنی ’’Focal Point‘‘ کی طرح ہے۔ شاہ عبدالعزیز بن سعود نے حجاز اور نجد کی ریاستوں کو مدغم کرکے ’’المملکۃ العربیہ السعودیہ‘‘ کے نام سے ایک نئے ملک کی بنیاد رکھی، جس کا کل رقبہ 927000مربع میل ، جو جزیرہ نما کے عرب کا تقریباً9/10حصہّ بنتا ہے۔ فارس ، پارس کی مُعرب مشکل ہے ،جس کی اصل پرسا(Persa)ہے ۔ ماضی کا فارس(Persia)ایک وسیع سلطنت اور اپنے عہد کی سپرپاور تھی ، جس کی حدود موجودہ ایران سے کہیں وسیع تر تھیں ۔ شاہ رضا خان پہلوی نے 1935ء میںسلطنت فارس کا نام تبدیل کرکے ایران رکھ دیا۔ طلوع اسلام کے وقت، عربوں کی ہمسایہ سلطنتیں، ساتویں صدی عیسویں کی سپرپاورز، دعوتِ دین کے فروغ میں رکاوٹ بن رہی تھیں ۔ایران کے مجوسی …یعنی آتش پرست ،فکری گمراہی میں مبتلا اور دینِ اسلام کے حوالے سے انتہائی تعصب کا شکار تھے ،جس کا بدترین عملی مظاہرہ ،شاہِ فارس خسرو پرویز (کسریٰ ) نے نبی کریم ﷺکا نامۂ مبارک چاک کرکے کیا، جس پر آپ ﷺ نے اس کی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وعید سنائی ۔ خسرو پرویز اپنے سوتیلے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں ہلاک ہوا ،جبکہ اس کی سلطنت اوراس عہد کی سپرپاور …حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی قیادت میں ’’قادسیہ ‘‘ کے میدان میں اُترنے والے لشکر کے ہاتھوں شکست خوردگی کے نتیجہ میں زمین بوس ہوگئی۔ نوشیرواں عادل کا بیٹا یزد گرد ،جواس وقت ایران کا بادشاہ تھا، ایک اونچائی پر کھڑا اپنی فوجوں کی شکست کا منظر دیکھ رہا تھا، تو اس کے منہ سے ایک فی البدیہہ رباعی نکلی، جس کا مفہوم کچھ یو ں تھا ،تُف بر اے آسمان! آج یہ وقت آگیا ،شیر شُتر (اونٹنیوں کا دودہ ) اور لحم سُوس ( گوہ کا گوشت) کھانے والے ، میرے ملک پر قابض ہوگئے ۔اور یوں اس سپر پاور پر عربوں کا تفوق قائم ہوگیا ، اورانہوں نے ایرانیوں کے لیے عجمی کالفظ مخصوص کردیا ۔عربوں کو چونکہ طلوعِ اسلام سے پہلے ہی اپنی ’’زبان دانی‘‘ پر بہت ناز تھا ،جس میں وہ کافی حد تک حق بجا نب بھی تھے ، صرف ایک تلوار کے لیے سو سے زائد الفاظ ان کی لغت میں موجود تھے ،امرأ القیس ،امیہ بن ابی الصلت اور لبید جیسے صاحبانِ فکر وفن، جن کو اپنی فصاحت وبلاغت پر فخر تھا ،ان کی سوسائٹی کا قابلِ فخر حصہّ تھے ۔بنابرایں وہ …غیر عرب کو عجمی یعنی گونگا کہتے تھے ،جبکہ دوسری طرف ایران کو اپنی تہذیب پر بڑا ناز تھا ، سکندر اعظم جیسا فاتح ان کے تمدنی مناظر ومظاہر دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ 14ھ بمطابق635ء ۔ تشکر آمیزی اور عبرت انگیزی کے جذبات کے زیر اثر، ان کے قصر ابیض(White House) میں داخل ہو ئے تو جابجا آرٹ، فنونِ لطیفہ ،نادر مجسمے اور شاہکار تصاویرآویزاں تھیں ۔صرف ان کے سٹیٹ بنک سے تیس کھر ب دینار مالِ غنیمت کے طور پر مدینہ منورہ گئے(ایک دینار آج کے ایک پونڈ کے برابر سمجھا جاتا ہے )، دیگر سازوسامان اور مال ومتاع کا کوئی حساب نہیں ۔ساٹھ مربع گز کا صرف ایک قالین تھا، جس پر ان کی پوری مملکت کانقشہ بنا ہوا تھا جس کی زمین سونے کی ، جبکہ اس میں بکثرت زروجواہر آراستہ تھے ۔اسی معرکے میں شہنشاہ یزد گرد کی بیٹی شہر بانو جنگی قیدی کے طور پر مدینہ میں لائیں گئیں اور حضرت عمر فاروق ؓ نے ان کا نکاح حضرت امام حسینؓ سے فرمایا ،جوکہ حضرت امام زین العابدینؓ کی والدہ بنیں ، اوریوں پہلی مرتبہ ایرانی شاہی خون ، خالص عربی اورہاشمی نسل میںشامل ہوا۔ واقعہ کربلا پر خراسان میں جو گریہ وزاری اور آہ وفغاں ہوا، وہ اس لیے ہوا کہ نواسئہ رسول نہایت مظلومیت کے عالم میں شہید ہوئے ،مگر اس لیے بھی ہوا…کہ ہمارے بادشاہ کی بیٹی کا شوہر اور اس کا پورا کنبہ بے دردی سے تہہ تیغ کردیا گیا ،سیاسی طور پر گذشتہ طویل تاریخ میں ایرانیوں نے عربوں کی برتری کو ،اور عربوںنے ایرانی تفوق کو کبھی تسلیم نہ کیا ، شیعہ اور سنی تنازعات میں بھی عرب وعجم کے اس تصادم کا بڑا کردار رہا، بلکہ یہ اسی کی ایک توسیعی شکل (Extention ) ہے ۔ بنوامیہ کے بعد بنو عباس…ابومسلم خراسانی ،جوکہ ایک نہایت قابل ایرانی جرنیل تھا ،کی مدد سے برسرِ اقتدار آئے ،تو دربار میں ایرانی اثر ورسوخ بڑھ گیا ،کبھی ایرانی اثر غالب آتا تو برمکی جیسے وزیر اعظم بنا دیئے جاتے اور کبھی عرب سردار غالب آجائے توہارون رشید … یحییٰ برمکی کواپنے کلاس فیلو فضل برمکی سمیت جیل میں ڈالوا دیتا ۔دس سالہ ایران وعراق جنگ اسی عربی اور عجمی تصادم کا نتیجہ بنی ،افغانستان میں طالبان اور ناردرن الائینس کے درمیان کشمکش ،شام میں پراکسی وار ،القاعدہ ، حماس اور حزب اللہ …ہر جگہ اس تنائو اور تصادم کے اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ماناکہ کلچر اور ثقافت بڑی مضبوط چیز ہے، مگر ہمارے نبی برحقﷺ نے تو خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر کالے کو گورے پر اور گورے کوکالے پر فوقیت دینے کی نفی اور عرب وعجم کی تقسیم کے خاتمے کا اعلان فرمایا تھا ،جبکہ اقبال نے مسلمانوں کو ’’ نیل کے ساحل سے لیکر تابجاکِ کا شغر‘‘ ایک ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا : بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملّت میںگم ہو جا نہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی