مصر اور اردن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو باخبر لوگوں کے لیے یہ اطلاع بے معنی تھی۔ کئی برسوں سے دونوں ممالک میں خفیہ تعلقات قائم ہیں۔ عالم یہ ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرچکا ہے ‘محض اعلان باقی ہے۔ فلسطینیوں کے دکھوں کی داستان کم ازکم ایک صدی پرمحیط ہے۔ جنگ عظیم اوّل میںترک خلافت عثمانیہ نے مغربی ممالک جن کی مہار برطانیہ کے ہاتھ میں تھی کا ساتھ دینے کے بجائے جرمنی اور چند چھوٹے ممالک کے جنگی اتحادکا ساتھ دیا۔ خلافت عثمانیہ سے ناراض عربوں نے یہودیوں اور برطانوی حکومت کے اشتراک سے مشرق وسطیٰ سے ترکی کا بوریا بستر گول کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جزیزہ نما عرب پر 1517سے 1917 تک ترکوں کی حکمرانی تھی۔ پورے چار سو سال کی ترک حکومت۔ عرب اتحادیوں سے برطانیہ نے وعدہ کیا کہ جنگ کے بعد پورے عرب کو ایک سلطنت طورپر تسلیم کرلیا جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ سرزمین عرب کو برطانیہ اور فرانس کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔ فلسطین برطانیہ کے ہاتھ لگا۔ یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی کہ برطانیہ کے وزیرخارجہ نے مغربی ممالک میں آبادیہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اعلان کیا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرائے گا۔بلفور اعلامیہ جاری کیا گیا جسے لیگ آف نیشن نے بھی تسلیم کرلیا۔عرب ہی نہیں‘ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اس فیصلے کی بھرپور مزاحمت کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اگرچہ تحریک خلافت کے مخالف تھے لیکن فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آبادی کاری اور ان کے لیے علیحدہ وطن کے زبردست مخالف تھے۔ مئی 1948میں اسرائیل کے قیام کا رسمی اعلان کردیا گیا۔امریکہ نے اسی دن اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔عرب ممالک اورانفرادی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ رفتہ رفتہ جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوگیا اور عرب پسپاہوتے گئے۔ 1967میں فلسطین کے مسئلہ پر فیصلہ کن جنگ برپا ہوئی۔ندامت کا داغ مٹانے کی خاطر مصر، عراق، شام اور اردن نے مشترکہ طور پر اسرائیل سے معرکہ آرائی کی۔ چھ دنوں تک جی ہاں محض چھ دن تک جاری جنگ میں مصر کی فضائی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا۔ جنگ چھیڑنے میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا بنیادی کردار تھا جو اپنے آپ کو عرب دنیا کا سب سے طاقتور حکمران تصور کرتے تھے۔وہ عرب قومیت اور سوشلزم کا پرچارکرتے اور سوویت یونین کے طفیلی بن چکے تھے۔ اسرائیل نے جنگ میں فلسطین کے جو علاقے مصر اور اردن کے انتظام میں تھے پر نہ صرف قبضہ کرلیا بلکہ شام سے جولان کے پہاڑی علاقے، غزہ (فلسطین) اور جزیرہ نمائے سینا کاایک لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہی نہیں بلکہ مغربی بیت المقدس بھی قبضہ کرلیا۔مصر اور شام نے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی خاطر 1973میں اسرائیل کے خلاف ایک اور جنگ چھیڑی۔ بیس دن تک جاری رہنے والی جنگ میں دونوں ممالک کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ان کے اعصاب بھی شل ہوگئے۔ مصر جنگ وجدل سے تائب ہوگیا۔اس نے مفاہمت کی راہ اختیار کی۔1978میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنا مقبوضہ علاقہ واپس حاصل کرلیا۔یہ بھی طے پایا کہ غزہ اور ویسٹ بینک میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی جانب پیش رفت کی جائے گی۔ عالم عرب میں مصر ہی وہ واحد ملک تھا جو فوجی طاقت رکھتا تھا اور اسرائیل کے قیام سے اسے چیلنج کرتارہا۔مصر اسرائیل معاہدے پر عرب رائے عامہ کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ مصر کو غدار قراردیاگیا ۔ رفتہ رفتہ جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ 1994میں اردن نے بھی امریکہ کی پشت پناہی سے اسرائیل سے سفارت تعلقات قائم کرلیے۔دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کسی تیسرے ملک کی مدد نہ کرنے کی ضمانت دی ۔ چنانچہ فلسطینیوں کی مدد سے اردن بھی دستبردار ہوگیا۔ 1993میں امریکہ کی سربراہی میں فلسطینیوں کے لیڈر یاسرعرفات نے اسرائیل کے ساتھ امریکی ریاست میری لینڈ کے سیاحتی مقام کیمپ ڈیوڈ میں معاہد ہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ جواب میں یاسر عرفات کی سربراہی میں فلسطین کے مقبوضہ علاقے یعنی غزہ اور ویسٹ بینک میں محدو د داخلی خودمختاری کے ساتھ فلسطینیوں کی حکومت قائم کردی گئی۔یہ بھی طے پایا کہ بتدریج اسرائیلی فورسز کا ان علاقوں سے انخلا ہوجائے گا۔بعد ازاں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی یروشلم پر کنٹرول کے حوالے سے بھی مذاکرات کریں گے۔ یہ ایک تاریخی پیش رفت تھی۔ افسوس! جلد ہی یہ معاہد ہ تعطل کا شکار ہوگیااور متوقع پیش رفت رک گئی۔ بعدازاں اسرائیلی فورسز کے خلاف ان علاقوں میں فلسطینی نوجوانوں نے انتفادہ کے نام سے تحریک شروع کردی ۔ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان بھی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ اسرائیلی مظالم نے امن کی راہیں مزید مسدود کردیں۔ 2017میں امریکی صدر ٹرمپ نے رسمی طور پر یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت قراردیا۔عرب ممالک کی آخر امید بھی ٹوٹ گئی۔ ان کی ہمت جواب دے گئی۔مال ودولت کے باوجود عرب ممالک کے اندر سفارتی یا عسکری استعداد نہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکیں ۔ اسرائیل کی فوجی برتری، سفارتی مہارت اور ٹیکنالوجیکل صلاحیتوں سے وہ بری طرح مرعوب ہیں۔ اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ عزم ۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں کل کلاں باقی بھی کرلیں گے۔ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔عرب رائے عامہ نے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور نہ اب کرے گی۔ اظہار رائے کی آزادی انہیں دستیاب نہیں اختلاف رائے تو درکنار۔ عرب ممالک کے اندر حکمران طبقات کے خلاف لاؤا پک چکاہے۔ آج نہیں تو کل جو پھوٹے گا ضرور اسے محض ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔