گزشتہ ہفتہ مشرقِ وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں ایک اہم واقعہ ہوا ہے۔سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور مصر نے ساڑھے تین سال تک برادر عرب ملک قطر سے انتہائی خراب تعلقات کے بعد اس سے مصالحت کرلی ہے ۔ اسکی فضائی‘سمندری اور زمینی حدو دکی ناکہ بندی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ پانچ جنوری کوسعودی عرب کے شہر العُلا میں چھ عرب ممالک پر مشتمل تنظیم خلیج تعاون کونسل کا سربراہی اجلاس ہوا۔یہ تنظیم سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت‘ بحرین ‘ عمان اور قطر پر مشتمل ہے ۔ کئی سال کے قطعِ تعلق کے بعد اس تنظیم کے اجلاس میں قطر کو مدعو کیا گیا ۔ جب قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمادالثانی سعودی دارالحکومت ریاض پہنچے تو سعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان نے انکا استقبال کیا جو ایک غیرمعمولی خیر سگالی پر مبنی اقدام تھا۔ گو مصر خلیج تعاون کونسل کا رکن نہیں ہے لیکن وہ سعودی عرب کا قریبی اتحادی ہے۔ مصر کے فوجی سربراہ الفتح السیسی کو بھی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اجلاس کے اختتام پر ایک سمجھوتہ پر دستخط کیے گئے جسے ’ العُلامعاہدہ‘ کا نام دیا گیا۔مصر نے بھی اس معاہدہ پر دستخط کیے جس کے تحت یہ تمام ممالک قطر سے سفارتی اور تجارتی تعلقات بحال کرلیں گے اوراسکے لیے اپنی فضائی‘ سمندری اور زمینی حدود کھول دیں گے۔تاہم ابھی معاہدہ ہوا ہے اس پر عمل درآمد پوری طرح شروع نہیں ہوا۔امارات نے تو اعلان کیا ہے کہ وہ قطر کی ناکہ بندی ختم کرے گا لیکن سفارتی تعلقات بحال نہیں کررہا۔ امارات کا روّیہ سعودی عرب کی نسبت زیادہ سخت ہے۔ قطر اٹھائیس لاکھ آبادی کا چھوٹا سا ملک ہے ۔دوہا اس کا دارالحکومت ہے۔ روس کے بعد دنیا کے سب سے بڑے قدرتی گیس کے ذخائر اس ملک میںواقع ہیں۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان کشمکش کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔تاہم ان ممالک کے تعلقات میںحالیہ خرابی دو ہزار دس سے شروع ہونے والی عرب بہار کی تحریک سے ہوئی جس میں مختلف عرب ممالک بشمول مصر میں آمریت کے خلاف جمہوری نظام کے حق میں زوردار احتجاج ہوئے اورکئی ممالک بشمول مصر میں حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ سعودی عرب کیلئے یہ صورتحال قابل قبول نہیں تھی۔ دوہا پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے ٹیلی ویژن چینل الجزیرہ کے ذریعے خلیجی ممالک میں بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔ قطر کے شاہی خاندان پر اخوان المسلمین کی حمایت اور مدد کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ فلسطین کے علاقہ غزہ میں قطر حماس کی حمایت کرتا ہے۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف بغاوت میں شریک اخوان المسلمین کی برادر تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ لیبیا میں بھی قطر سعودی عرب کے برخلاف ترکی کی طرح طرابلس حکومت کے ساتھ ہے۔ گویا پورے خطہ کی علاقائی سیاست میں قطر اورسعودی عرب ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ سنہ دو ہزار چودہ میںقطر کی پالیسیوں سے ناراض ہوکر سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر سے اپنے سفیر واپس بلالیے تھے لیکن چند ماہ بعد یہ تعلقات بحال ہوگئے۔ اس دوران میں قطر نے ترکی اور ایران سے قربت بڑھا لی۔سعودی عرب کی سربراہی میں عرب ممالک ترکی اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے قطر سے تعلقات میںتناؤ کم نہیں ہوسکا۔سعودی عرب اور امارات کی یمن میں جنگ نے ان تعلقات کو مزید متاثر کیا۔دو ہزار سترہ میںسعودی عرب‘ امارات‘ بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے اور اسکی ناکہ بندی کردی۔ اس پر اپنی فضائی‘ سمندری اورزمینی حدود کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔اسی دوران میں سعودی عرب اور امارات کے بینکوں نے قطر کی کرنسی کو غیرمستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔امارات نے ہیکرز کی مدد سے الجزیرہ کے سربراہ اور کارکنوں کی جاسوسی کروائی۔ خدشہ تھا کہ یہ ممالک قطر پر حملہ کرسکتے ہیں۔ ترکی امیر قطر کی مدد کو آگے بڑھا۔ ترکی نے قطر میںاپنا فوجی اڈہ قائم کرلیا۔اسکے فوجیوں کو تربیت دی۔ یُوں یہ خطرہ ٹل گیا۔جواباً قطر نے ترکی میں موجود اخوان المسلمین کی مالی امداد میں اضافہ کردیا۔ ایران نے قطر سے تعاون بڑھا دیا اور اسے اپنے سمندری راستے سے تجارت کی سہولت فراہم کردی۔عرب ممالک کی ناکہ بندی سے قطر کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچ سکا۔وہ مخالفین کے سامنے جھکا نہیں۔ ناکہ بندی سے پہلے قطر کی فوجی طاقت بہت ہی محدود تھی۔ اسکے پاس صرف بارہ جنگی طیارے تھے۔ لیکن اس نے معاندانہ صورتحال سے نپٹنے کی خاطر اپنی فوجی طاقت کو بہت وسیع کرلیا۔ ایک سو جدید ترین جنگی طیارے فرانس‘ برطانیہ اور امریکہ سے خریدے۔ جرمنی سے جدید ترین ٹینک اورخود کار توپیں ‘ چین سے میزائل‘ ترکی سے ڈرون حاصل کیے۔اٹلی سے سب میرین سمیت سمندری اسلحہ خریدا۔ روس سے میزائل شکن دفاعی نظام خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اب قطر ایک بڑی فوجی طاقت ہے۔ خلیج کونسل کے دو ممالک عمان اور کویت نے قطر سے تعلقات ختم نہیں کیے تھے۔ کویت چند سال سے مسلسل کوشش کررہا تھا کہ سعودی عرب اور اسکے اتحادی ممالک کے قطر سے تعلقات بحال ہوجائیں ۔ سعودی عرب وغیرہ نے قطرسے مصالحت کی تیرہ شرائط عائد کی ہوئی تھیں جو دوہا کے حکمران ماننے سے انکاری تھے۔ ان شرائط میں الجزیرہ چینل کی بندش‘ ترکی کے فوجی اڈہ کا خاتمہ‘اخوان المسلمین سے تعلقات منقطع کرنا ‘ ایران سے تعلقات میں کمی شامل تھے۔ تاہم اب کوئی شرط منوائے بغیر سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں نے قطر سے مصالحت کے معاہدے کرلئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بڑے مددگارڈونلڈ ٹرمپ امریکی الیکشن ہار گئے۔ نئے صدر جو بائیڈن کا روّیہ یمن کی جنگ کے بارے میں سعودی عرب کے حق میں ہونے کا امکان نہیں۔توقع ہے کہ وہ ایران سے بھی تعلقات بہتر بنائیں گے۔اس صورتحال میں سعودی عرب اور اسکے اتحادی قطر سے تعلقات بحال کرکے اپنی پوری توجہ ایران کے اثر و رسوخ کو محدودکرنے پر لگانا چاہتے ہیں ۔قطر اورسعودی عرب‘ امارات کے درمیان مصالحتی معاہدہ تو ہوگیا ہے ۔ کشیدگی کچھ کم ہوجائے گی لیکن اس بات کا امکان نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مؤثر تعاون کریں گے۔