عورت مارچ کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں میں کچھ بہت اہم ہیں۔ ایک آواز نور الحق قادری کی ہے۔ وفاقی وزیر نور الحق قادری نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ عورت مارچ پر پابندی لگا دیں۔ اسی طرح کچھ صحافیوں نے حکومت سے درخواست ہے کہ وہ عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ کو حجاب ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کر دیں۔ حالانکہ جماعت اسلامی ہر سال 4 ستمبر کو حجاب ڈے خوب دھوم دھام سے مناتی ہے۔ اسی طرح جماعت نے 14 فروری، جو کہ بین الاقوامی طور پر ویلینٹائین ڈے کے طور پر اپنی شناخت رکھتا ہے ،کو حیا ڈے ڈکلیئر کر رکھا ہے۔ ایسے میں ایک اور بین الاقوامی دن کو حجاب ڈے کہنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ اگر ہم ہر بین الاقوامی دن کومعاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھیں گے تو عالمی برادری سے جڑی اس تہذیب سے کٹ جائیں گے جس کی انسانی حقوق سے وابستہ جدو جہد نے پوری دنیا میں مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ دوسری طرف بحیثیت ایکذمہ دار ملک ہم ان تمام معاہدوں اور اعلامیوں کے امین ہیں جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تشکیل دیے گئے۔ ان معاہدوں اور اعلامیوں پر دستخظ کر کے ہم نے ان دستاویزات میں درج اصول، احکامات اور نظریات کے نہ صرف درست ہونے کا اقرار کیا ہے بلکہ انہیں ملکی سطح پر نافذ کرنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ ان میں خواتین اور انسانی حقوق سے جڑے معاہدے بھی ہیں۔ یاد رہے کہ ہماری انسانی حقوق سے متعلق کارکردگی کو یورپی یونین میں ہر سال جانچا اور ماپا جاتا ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آیاپاکستان کو جی ایس پی پلس کی سہولت دینی ہے یا نہیں۔ عورتوں کے عالمی دن کو حجاب ڈے بنانے یا عورت مارچ پر پابندی لگانے سے شاید ہم پر کوئی ایسی قدغن نہ لگے لیکن ایک بات تو طے ہو ہی جائے گئی کہ پاکستان عالمی طرز فکر رکھنے کا متحمل ملک نہیں ہے۔ دوسری طرف ان اقدامات سے مذہبی جنونیت جیسے جذبات کو ہوا ملے گی جس کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان میں آئے دن بے گناہ لوگوں کو ہراساں اور ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے۔ مذہب کو ذاتی مسئلہ بے شک نہ بنائیں کیونکہ اسے ہم نے سیکولرزم کی خود ساختہ تعریف سمجھ لیا ہے۔ ایسے میں مہذب اقوام نے کچھ اصول اور ضابطے بنا رکھے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے اس شخصی آزادی کو اپنانے کی اجازت ہے۔ مثال کے طور پر اس بات کی امریکہ یا یورپ میں ہر گز اجازت نہیں کہ لوگ اٹھ کر چرچ کو یا بائبل کو آگ لگانی شروع کر دیں۔ جو یہ کرے گا اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ مذہبی اداروں اور رسومات کواپنانے کی وہاں نہ صرف آزادی ہے بلکہ ریاستی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔ قران کہتا ہے لا اکراہ فی الدین یعنی دین کو اپنانے میں کوئی جبرنہیں۔ اسلام غیر مسلموں سے جزیہ لے کر انہیں اسلامی ملک میں امن سے رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہماری دینی تعلیمات غیر مسلموں کے ساتھ معاہدے کرنے اور انکی پاسداری کرنے پر زور دیتی ہیں۔ ان تمام احکامات اور تعلیمات کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ اسلام ہر مذہب اور فکر کے لوگوں کو جذب کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ اب آتے ہیں عورت مارچ کی طرف۔ ہم یہاں جس عورت مارچ کا ذکر کر رہے ہیں وہ پاکستان کی پیدا کردہ شکل ہے، یہ دنیا میں ہونے والی عورت مارچ یا عورتوں کے حقوق سے متعلق تحریکوں سے بھی مختلف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے چند سالوں میں عورت مارچ کے نام پر عورتوں کو مزید غیر محفوظ کیا گیا ہے۔ ایک انتہائی بھونڈے انداز سے عورتوں کو مردوں کے مقابل لانے کی کوشش کی گئی۔ جس قسم کے نعرے بنائے گئے ان میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کم اور مردوں سے مشابہت اپنانے یا انکے طرز عمل پر طنزیہ گفتگو کرنا زیادہ مقصود تھا۔ عورت مارچ کے اس طریقہ کار کو ہر ذی شعور نے نا صرف رد کیا بلکہ ان کے منتظمین کی سرزنش بھی کی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی پاکستان میں اس سنجیدہ مسئلے کو غیر سنجیدہ اور حقیر بنانے کی سازش ہو۔ پاکستان کی کونسی چیز ہے، کونسا نظریہ ہے، کونسا ادارہ یا میدان ہے جسے غیر سنجیدہ اور بونا نہیں بنایا گیا۔عورت مارچ کو متنازع بنانے کے پیچھے بھی یہ ہی سوچ کار فرما نظر آتی ہے۔ عورت مارچ پر نہ تو پابندی لگانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی عورتوں کے عالمی دن کو کسی اور نام سے منسوب کرنے کی گنجائش۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ انتظامیہ عورت مارچ کے منتظمین کے ساتھ بات چیت کرے۔ ان کے ساتھ انگیج ہو۔ اپنا مطمع نظر ان کے سامنے رکھے اور ان کے اندازفکر اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ بات نہ کرنا اورڈرا دھمکا کر کسی خاص نظریے کی پیروی اس نظریے اور نظام کے خلاف نفرت پیدا کرے گا۔ نہ تو عورت مارچ اور نہ ہی عورتوں کا عالمی دن قابل مذمت ہے۔ ہمیں معاملہ فہمی کا طرز عمل اپنانا چاہیے نہ کہ عالمی روایات پر چڑھ دوڑیں۔ پاکستان کو لبرل اور نان لبرل کی بحث سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس تقسیم سے دونوں طرف انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے جس کے منفی اثرات سماج میں عدم برداشت اور اپنی سوچ دوسرے پر مسلط کرنے کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ ہمارے پاس معاملہ فہمی کی بہت سی روشن مثالیں ہیں، بس سمجھنے اور دوسروں کو گنجائش دینے کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭