نظر کی کوتاہی‘ ذہن کا افلاس کہ زاغ و زغن(کوّے ‘ چیلیں) جنہیں شاہین و عقاب دکھتے ہیں اوروں کو بھی باور کروایا لیکن تیز نظر نوجوان ان کی بوڑھی ادائوں اور سال خوردہ غمزے پر ہنستے اور ٹھٹھ کرتے رہے، نئی نئی حکومت کا پہلا پہلا دن تھا کہ اک حادثہ ہوا۔ڈالر ٹھہر گیا‘ سٹاک مارکیٹ کا رجحان مثبت رہا تو وہ پکار اٹھے جوش میں ہوش گنوا کے ’’پالیا‘ پالیا‘‘ گویا انہوں نے بھی مایہ ناز سائنس دان کی طرح کشش ثقل کی نئی جہت دریافت کر لی ہو۔ آں جناب نے مصیبت کو خود دعوت دی‘ سفارشی پروگرام‘ پلانٹڈ سوالات وہی گھسی پٹی منطق‘ سازش نہیں ہوئی صرف ’بدترین مداخلت تھی‘‘ بدترین بھی جنہیں بہت ہلکی لگے ہے‘ ان کی موٹی کھال‘ واقعی کام کی چیز ہے اسے آئندہ نسلوں کے لئے بھی سنبھال رکھنا چاہیے۔ سچ کہا تھا کہ خاموشی جاہل کے لئے پردہ اور عالم کے لئے زیور ہے‘ پھر انہوں نے خود ہی پردہ اٹھا دیا‘اب پاکستان بے چارہ ’’ٹک ٹک دیدم‘‘ یہ بڑے عجیب دن نہیں‘ اگرچہ تھوڑے ہی دن ہیں کہ سچ لکھنا مشکل تو ہے مگر اتنا مشکل نہیں جتنا اس کو چھپانا مشکل ہے کہ اس کا خمیازہ لکھنے والے سے زیادہ دوسروں کو بھگتنا پڑتا ہے اور دوسرے کیوں بھگتیں؟البتہ سچ بولنا آسان ہے مگر اس کے لئے بھی شاہین صہبائی کی طرح امریکہ یا دوسرے دوست کی طرح لندن جانا پڑتا ہے، جن دنوں ہم نے سکول جانا شروع کیا‘ اپنے گائوں میں شیشم کا درخت‘ پھٹا پرانا ٹاٹ کا بچھونا‘ تختی اور سلیٹ‘ ان دنوں الف انار‘ ب بکری‘ پ پنکھا اور د دانشور ہوتا تھا۔آج کل ن سے دانشور ہوتا نون کے دانش وروں کے قدم ستاروں پر امیدیں آسمانوں سے پرے محو پرواز تھیں ‘شہباز اور کارکردگی عمران خان کیا بیچتا ہے؟ ذرا آنے تو دو‘ شہباز شریف کو‘ شہباز شریف کارکردگی ‘ کارکردگی کے نیچے کراہتا‘ تڑپتا ہوا عمران خاں اور یوتھیے کیا دلکش منظر انہوں نے دل میں بسایا اور آنکھوں میں سجا رکھا تھا۔10اپریل رمضان المبارک کے دن بروز اتوار نماز تراویح کے بعد عمران خاں کی حکومت ختم ہوئے، اکیس 21گھنٹے گزر چکے تھے‘ ابھی دن پورا ہونے میں تین گھنٹے باقی تھے پاکستان بھر میں گائوں ‘ قصبے‘ شہر خیبر سے کراچی تک لوگ جوق در جوق نکل کھڑے ہوئے، ایک کروڑ سے تین کروڑ تک جن کا تخمینہ لگایا جاتا ہے وہ عمران خاں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے، پرجوش پرمسرت کوئی غم تھا‘ حزن نہ ملال‘ بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘مرد‘ خواتین سب قبیلے سب برادریاں بلا تفریق ایسا منظر اتنا جوش اور ولولہ چشم فلک نے پہلی دفعہ دیکھا تھا ،دنیا بھر کے ایک سو سے زیادہ بڑے شہروں میں لوگ دیوانہ وار نکلے یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا ‘ افریقہ‘ آسٹریلیا‘ مشرق وسطیٰ ‘ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب‘ سوڈان‘ صومالیہ جہاں کوئی سیاسی جلوسوں کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا، وہاں بھی لوگ عمران خاں کے لئے نعرے لگاتے رہے ،نون دانشوروں کے چھکے چھوٹ گئے اندھیری رات‘ جنگل کی مسافت‘ تنہائی میں گناہگار کا دل‘ جس طرح بیٹھا جاتا ہے وہ بھی دبکے بیٹھ گئے تھے۔عوام میں مقبولیت‘ بے پناہ جلسے لوگوں کا جوش و خروش سب حواس باختہ ہیں‘ بے چارہ نیوٹرل‘ اس کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے آصف علی زرداری کیا دل گردے کے آدمی ہیں، کہا ہم آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘ آپ نے تین سال رہنا ہے‘ ہم تو یہیں ہیں‘ آپ سے پہلے بھی تھے آپ کے بعد بھی ہونگے، یہ الگ بات کہ پھر کچھ سوچ کر بھاگ لئے دبئی میں جا کر دبک بیٹھے‘ نامہ‘ پیام‘ معافی تلافی مگر یہ نامہ پیام معافی تلافی لب بام تھا۔سرعام دھمکی لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی۔تین سال تو پھر بھی بیت گئے‘ اب تو دنوں کی بات ہے، دن بھی کتنے بس گنتی کے۔ عمران خاں آصف زرداری کے مقابلے کہیں بہادر‘ جری‘ مضبوط اور طاقتور ہے یہ چند دن اس کے لئے کیا ہیں؟ہنستے کھیلتے گزر جائیں گے۔ اس کے بعد تمہارا کیا بنے گا کالیا‘ عباس اطہر مرحوم نے یاد نیں یہ کس کے لئے تھا۔ ہر گزرنے والا دن عمران خاں کی مقبولیت اور ضرورت کو بڑھاتا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی ہرگزرتا دن پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے ۔ان حالات میں عمران خاں کے لئے انتظار گوارا مگر قوم کو ناگوار ہو رہا ہے۔جعل سازوں کی حکومت اور اس کو مسلط کرنے والے سہولت کار خوفزدہ ہیں۔ڈرے ہوئے گھبرائے گھبرائے وحشت زدہ۔یہ قسم قسم کے سیاسی جس رسی سے باندھے ہیں، وہ رسی گرم خوردہ کمزور اور بوسیدہ ہو چکی ہیں‘یہ بندھن جو خود ٹوٹ گرنے والی ہے انہیں اکٹھا کیسے رکھ پائے گی۔ شہباز شریف اینڈ کمپنی کے پاس حکومت چلانے کی اہلیت ہے ہمت نہ جواز‘لانے والے الگ پریشان ان کا اپنا چل چلائو ہے، تو ان بے چاروں کی چارہ سازی کون کرے گا؟ بچائے گا کون؟ترجمانوں کی بوکھلاہٹ ‘ بے چارگی نظر چرا کے بات کرنے کا انداز ان کے خوف کو نمایاں تر کرتا جا رہا ہے۔ خوف ان کے اندر سے ہوتا ہوا، اہل قرب اور کارکنوں کے دلوں تک اتر چکا ہے، ان میں باہ نکلنے اور مقابلہ کرنے کی ہمت باقی نہیں بچی۔’’پلٹنا‘ جھپٹنا‘ پلٹ کر جھپٹنا‘‘ لہو گرم رکھنے کے لئے تحریک انصاف اور قیادت کے پاس ضمنی انتخابات کا سنہری موقع ہے۔ بیس بائیس حلقے اور بیس بائیس کپتان کے جلسے رنگ جما دیں گے۔ان دنوں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال‘فوج کے نئے سپہ سالار کی تقرری کا ہے کہ تقرری کون کرے گا؟تحریک انصاف کے کارکن نہیں چاہتے کہ شہباز کمپنی کو اس فیصلے کا وقت دیا جائے لیکن سپہ سالار کی تقرری عمران خاں کی صحت پر کچھ اثر نہیں ڈالتی‘ایک حد تک بہتر ہے کہ اس کا اختیار عبوری حکومت کے لئے رکھا جائے‘عمران خاں کے لئے کافی ہے کہ وہ پرزور مطالبہ کرے کہ پسند ناپسند ہمیں منظور نہیں۔سب سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل کو ترقی دے کر بری فوج کا سربراہ بنایا جائے‘جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بری یا فضائی افواج سے مقرر کیا جائے۔ عمران خاں کی بہترین حکمت عملی یہی ہو سکتی ہے کہ انتخاب سے کچھ دن پہلے تک نیا سربراہ فوج کی کمان سنبھال چکا ہو۔ یہ بات بھولنے کی نہیں کہ افواج پاکستان میں سربراہ کی تقرری سینئر ترین لوگوں میں ہونا ہوتی ہے ہر کوئی بڑی محنت‘ مقابلے اور جانفشانی سے اپنے فرائض پورے کر کے کور کی کمانڈ تک پہنچتا ہے۔انہی کور کمانڈر میں سے ایک کو چننا لازم ہے۔کور کمانڈر یہاں تک آنے میں کسی کا احسان مند نہیں ہے تو آخری تقرری اسے غیر فوجی کا احسان مند کیوں بنائے گی۔ ایوب خاں کو ملازمت میں توسیع کس نے دی؟کیا وہ احسان مند ہوا؟یحییٰ خاں کو بنایا تو ایوب خاں کے ساتھ کیا ہوا؟ضیاء الحق کے بارے بھٹو کو کیا کیا گمان تھے۔ پھر کیا ہوا؟ مشرف کو بھی نواز شریف نے نیچے سے چنا تھا یہ سوچ کر’’اردو بولنے والا‘‘ ایک جرنیل تنہا تنہا اس کا کوئی گروپ نہیں؟ اس نے کیا کیا؟ تازہ ترین مثال اب بھی جاری ہے؟ تقرری’توسیع مختصر مدت میں دونوں کے احسانات اتار دیے گئے؟اس سلسلے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ رہ گئی بات ‘حکومت ‘ الیکشن‘ دھاندلی کی تو تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔عمران خاں کی مقبولیت‘ نوجوانوں کے ساتھ ان کا جوش و جذبہ الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ‘ بے چاری عبوری حکومت‘ لاکھوں لوگوں کی طرف سے چڑھ دوڑنے کا خطرہ‘اس سب کے بعد اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت اور ان کی طرف سے نگرانی کا انتظام دیکھتے جائو‘ انتظار کرو‘ نئی صبح کا سورج دور نہیں۔صدر پاکستان انتظار کیجیے۔عدالت عظمیٰ ضرور کمیشن بنائے گی لیکن مناسب وقت پر وہ ’’مناسب وقت‘‘ دور نہیں!