حال سے بے خبر، ماضی میں زندہ قوموں کا مستقبل مخدوش ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ ماضی کو یاد کر کے غمگین یا خوش ہوا جا سکتا ہے۔ اپنی کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار یا ناکامیوں سے سبق بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں لیکن زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ قوموں کا اجتماعی طرزِ عمل ان کے مستقبل کا رخ متعین کرتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کا قومی مسائل کے حوالے سے انداز فکر ان کی کامیابی یا ناکامی کا باعث بھی بنتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ، عوام اور رہنما مل کر تشکیل دیتے ہیں۔ جیسی قوم ہوتی ہے ویسے ہی ؐضضحکمران اس پر حکومت کرتے ہیں۔ پاکستانی دانشور ہمیشہ حکمرانوں کی کرپشن بے نقاب کرنے میں مصروف رہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ محض اشرافیہ ہی نہیں، بے ایمانی کم و بیش تمام طبقات میں موجود ہے۔ بہت کم دانشوروں نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کرنے کی کوشش کی۔ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کرنے کی لعنت ہو یا پھر ناجائز منافع خوری۔ ذخیرہ اندوزی کرنے کی مہارت ہو یا سرکاری محکموں میں بیٹھے مہربان، کرپٹ عناصر ملک کے ہر کونے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ایک گھر کی تعمیر سے لے کر ملکی اداروں کی تشکیل تک جس کا جتنا اور جہاں بس چلا، اس نے دونوں ہاتھوں سے ملک و قوم کو لوٹا۔ آخر یہ ملک آج محض چند حکمرانوں کی وجہ سے اس حال کو کیسے پہنچ گیا؟ بحیثیتِ قوم ہم سب کسی نہ کسی شکل میں اپنے وطن کی اس ابتر حالت کے ذمہ دار ہیں۔ ایسا نہیں کہ محب وطن اور ایماندار لوگ ہمارے معاشرے میں موجود نہیں۔ حیرت سے مگر انسان سوچتا ہے کہ ہماری اپنی رضامندی کے بغیر، کرپٹ اور نا اہل حکمران اتنا عرصہ ہم پر کیسے مسلط رہ سکتے تھے؟ انتخابات میں الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو بہت سے لوگ محض ذات برادری یا پھر کسی لالچ کی بنا پر ووٹ دیتے ہیں۔ ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اپنی خامیوں کا تذکرہ کرنے سے یہاں مقصد تنقید برائے تنقید نہیں۔ بلکہ خود اپنے اور دوسروں  کے لئے غور و فکر کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش ہے۔جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے قومیں عروج و زوال کے سفر سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔ کچھ قومیں تو اپنے ماضی میں ہی الجھ کر رہ گئیں ہیں۔ غلطیوں سے انہوں نے کچھ نہیں سیکھا، چنانچہ آج وہ زوال پذیر ہیں۔ جبکہ بعض معاشرے ایسے ہیں جنہوں نے نئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالا اور دنیا بھر سے اپنا لوہا منوایا۔ مثال کے طور پر بھارتی ابھی تک ماضی کے سہانے خوابوں میں مگن ہیں۔ اکھنڈ اور مہا بھارت کا فلسفہ آج بھی ان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتا ہے۔ اسی جذباتی طرزِ فکر کی بنا پر ہندوستان، پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک آزاد و خودمختار ریاست کی حیثیت سے پاکستان، بھارت کو قطعاً قابلِ قبول نہیں۔ ایسے ہی تعصبات ہوتے ہیں جو قوموں کو اوپر اٹھنے نہیں دیتے۔ عام انتخابات میں ایک بار پھر ہندوستانی عوام نے نریندر مودی کو چن لیا۔ سب جانتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم اور ان کی جماعت انتہا پسندانہ نظریات کے مالک ہیں۔ بھارتی قوم بھی لیکن شدت پسندی کے رجحان کی طرف پوری شدومد کے ساتھ مائل دکھائی دیتی ہے۔ اس حقیقت کو مگر ضرور تسلیم کرنا چاہیے کہ بھارت ہمارے مقابلے میں تیزی سے معاشی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ امریکہ بہادر اور ایران کی کشیدگی آج کل عروج پہ ہے۔ نارنجی بالوں والے مسخرے کا بس نہیں چلتا کہ ایران کو نیست و نابود کر کے رکھ دے۔ ایران پر بے پناہ معاشی پابندیاں تو تھیں ہی۔ اب امریکی بحری بیڑے بھی خلیج فارس میں آن کھڑے ہوئے ہیں۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ انکل سام ایران کو سنگین نتائج کی دھمکی نہ دیتا ہو۔ ہیلری کلنٹن کا ایک انٹرویو دیکھا تو موصوفہ کو یہ کہتے ہوئے پایا کہ اگر وہ ہوتیں تو ایران پر حملہ کرنے سے گریز نہ کرتیں۔ شاید امریکی ابھی تک ویتنام، افغانستان اور دیگر جنگوں میں ہزیمت اٹھانے کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھ سکے۔ ایران ان ممالک میں سے ہے جو اپنی ماضی کی طاقت، تہذیب و ثقافت پر فخر کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ محض شاندار ماضی، مستحکم حال اور محفوظ مستقبل کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ یقیناََ امریکی رویہ جارحانہ ہے مگر ایران کو جنگ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ عالمی برادری کو بھی قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تا کہ اس خطے کو ممکنہ تباہی سے بچایا جا سکے۔ عربوں کا رویہ بھی مثبت نہیں۔ صرف اپنی تاریخ پر نازاں عرب، حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر ضرور غور کریں جس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان کو اپنے عصر سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ صرف عربوں کو ہی نہیں تمام دنیا کے مسلمانوں کو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ عالیشان پر غور و فکر اور عمل کرنا ہو گا۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ابتر حالات اور ایک بھیانک مستقبل ہمارا منتظر ہو گا۔ اقبال ہماری حالت زار پر مدتوں آہ و بکا کرتے رہے۔ عظیم مفکر ہمیں تباہی سے دوچار ہوتا دیکھ رہا تھا۔ تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو  ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو! ترک بڑی حد تک سوجھ بوجھ کے حامل نظر آتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ترکی سے خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ ماضی کی اس عظیم طاقت نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا۔ جدید دور کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کیا۔ آج نہ صرف مسلمان، بلکہ دنیا بھر کے ممالک ترکی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ روس اور برطانیہ بھی کبھی دنیا کی سپر پاورز تھے۔ آج بھی یہ دونوں ممالک مضبوط تصور کیے جاتے ہیں۔ کچھ بنیادی غلطیوں کی وجہ سے اگرچہ اب دونوں کا اس دنیا میں وہ مقام نہیں جو ماضی میں کبھی تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جاپان اور جرمنی تباہی سے دوچار ہوئے۔ مگر دونوں نے اپنے معاشروں کی تشکیلِ نو کی۔ دنیا کی دوسری قوموں کو ان کے عزم و ہمت سے سیکھنا چاہیے۔ چین کی ترقی کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ بات ادھوری رہے گی۔ وہ ناکام ترین اقوام میں شمار کیے جاتے تھے۔ آج وہ ایک روشن مثال ہیں کہ قومیں اگر کمر بستہ ہو جائیں، تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی۔پاکستان دفاعی لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دے کر کامیابی حاصل کی۔ قوم بھی اس کٹھن جنگ میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ سفارتی محاذ پر لیکن جس طرح سے پاکستان کو اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کر سکا۔ اس سے بھی بڑا چیلنج جو پاکستان کو موجودہ حالات میں درپیش ہے وہ کمزور معیشت کا ہے۔ آج کے اس دور میں مضبوط معیشت رکھنے والی قومیں ہی اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا کر سکتی ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے، معاشی استحکام کے لیے جو اقدامات بھی ناگزیر ہوں وہ کر گزرے۔