مغل خاندان کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر مغلیہ حکومت کے آخری جاہ و جلال کی نشانی تھے لیکن بس نشانی ہی تھے حال یہ تھا کہ سندھ پنجاب پر بھی انگریز قابض ہو چکے تھے اب فرنگی سرکارنے بہادر شاہ ظفر کی جائیداداملاک پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا تھا انگریز سرکار نے ان کے دیہات جاگیریں باغ اور مکانات صرف تین لاکھ سالانہ اضافی وظیفہ پر اپنی تحویل میں لے لیں تھیں شاہی قلعے کے تمام اخراجات بھی انگریز سرکار نے اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے ، بادشاہ مکمل طور پر انگریز سرکار کا وظیفہ خوار ہوچکا تھا وہ مغلیہ بادشاہت جس کا طوطی پورے ہندوستان میں بولتا تھا اس کی بولتی بند ہوچکی تھی بادشاہت یہ رہ گئی تھی کہ ظل الہٰی ابوالمظفرسراج الدین محمد بہادر شاہ غازی ایک معمولی کھاٹ پربچھے گدے پر سفید لباس پہنے سر پرسفید مخروطی سی دستار باندھے گہری سوچ میں گم بیٹھے ہوتے اور مدقوق چہروں والے دو ملازم پشت پر کھڑے مورچھل جھل رہے ہوتے ۔ بہادر شاہ ظفر کی زندگی پر نظر ڈالیں توافسوس بھی ہوتا ہے اور دکھ بھی،ساتھ ہی غصہ بھی آتا ہے کہ بادشاہ نے اس ذلت آمیز زندگی کا انتخاب خود کیا یہ باج گزاری،یہ وظیفہ خواری ان کی اپنی چوائس تھی ،1857ء میں سور اور گائے کی چربی والے کارتوسوں نے انگریزی فوج کے ہندو اور مسلمان سپاہیوں کی بغاوت کی صورت میں بادشاہ کو آبرو مندآنہ زندگی گزارنے کا موقع دے دیاتھا، ڈمڈم اور بارک پور سے شروع ہونے والی بغاوت میرٹھ پہنچ کر پوری تحریک بن چکی تھی،انگریز سرکار کے مسلمان بھی ان کارتوسوں پر لگی چربی منہ سے اتارنے سے انکاری تھے اور یہی حرف انکار ہندؤں کی زبان پر تھا سور مسلمانوں کے لئے حرام تھا تو گئو ماتا کی چربی کو ہندو کیسے منہ لگاتے میرٹھ میں ایشوری رام اور منگل پانڈے نے انگریز افسروں پر حملہ کردیا جس کے بعدمنگل پانڈے کو سولی چڑھا دیا گیا فوجیوں کی انتہا درجے کی تذلیل کی گئی اس ظلم و ستم نے جلتی پر تیل کا کام کیا بغاوت پھیل گئی انہوں نے ہتھیار اٹھا لئے چھاؤنیوں میں جو گوری چمڑی والا متکبر افسر دکھائی دیا اس کی چھاتی میں سنگین گھونپ دی ،بغاوت پھیل گئی ،یہ باغی ہتھیار اٹھائے دہلی پہنچے اور بادشاہ سے کہا کہ آپ ہمارے مائی باپ ہیں ہمارے سرپرست ہیں آ ج آپ نے ہمارے سر پر ہاتھ نہ رکھا ہمارے دین کی حفاظت کے لئے نہ اٹھے تو کون اٹھے گا اور کیا بچے گا ؟ بادشاہ نے باغیوں کو اِدھر تسلی دی اور ادھر انگریزوں سے رابطہ کرلیااور کہا کہ جلد آئیں اور معاملات سنبھالیں انگریزوں نے کمشنر اور ایک کپتان کو باغیوںسے بات چیت کے لئے بھیجا لیکن بات نہ بنی باغیوں نے دونوں کوماردیا جس کے بعد بات اوربڑھ گئی بادشاہ نے یہ دیکھا تویہ سوچ کر کہ چلو اسی بہانے انگریزوں سے چھٹکارہ ہو جائے اپنے بیٹوں کو باغیوں کی کمان کے لئے بھیج دیا ،یہ ایک غیر منظم لڑائی تھی پھر ایک جانب گورا صاحب کی مضبوط فوج اور دوسری جانب باغیوں کی بے ترتیب ٹولیاں لیکن باغی بے جگری سے لڑرہے تھے اس لڑائی میں کلائمکس اس وقت آیا جب روہیل کھنڈ سے بخت خان اپنے سپاہیوں کے ساتھ دہلی پہنچ گیا یہ توپ خانے کا صوبے دار اور بیدار مغز ہشیار سپاہی تھا یہ بے جگری سے لڑا اس نے انگریز فوج کو دہلی میں گھسنے نہ دیا ،انگریز جنرل نکلسن پورے چارماہ تک دہلی میں گھسنے کے لئے سر توڑ کوششیں کرتا رہا لیکن بخت خان کے سامنے اسکی ایک نہ چلی بلآخر غداروں کی جانب سے دی جانے والی اطلاعات پر دفاعی حصار کے کمزور حصے پر گولہ باری کر کے اسے توڑ ڈالاگیاانگریز فوج شہر میں داخل ہوگئی لیکن اسے گھر گھر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا،بخت خان نے بھانپ لیا کہ اب کیا ہونے والا ہے اس نے بادشاہ سے کہا کہ دہلی ہاتھ سے نکل رہا ہے آپ میرے ساتھ چلیں آپ جہاں ہوں گے لوگ آپکے نام پر جمع ہوجائیں گے تحریک زندہ رہے گی جدوجہد جاری رہے گی پھر ہم مارے بھی گئے تو حسرت نہ ہوگی کہ ہم نے کوشش نہ کی لیکن کم ہمت بوڑھابادشاہ ہمت ہار چکا تھا وہ اپنے سمدھی مرزا الہٰی بخش کے کہے میں آگیا الہیٰ بخش نے مشورہ دیا کہ آپ یہیں رہیں میں انگریزوں سے بات کرکے سب سنبھال لوں گا مجھے امید ہے وہ اس ساری صورتحال میں آپکی مجبوری سمجھیں گے جان بخشی ہوجائے گی کہتے ہیں بخت خان نے بادشاہ کو سمجھانے کی منانے کی بہت کوشش کی کہا کہ پورا ہندوستان آپکا ساتھ دے گا آپ دل نہ ہاریں خود کو انگریزوں کے حوالے نہ کریں لیکن بہادر شاہ ظفر نے اپنے نام کی بھی لاج نہ رکھی اور دہلی میں ہی رکنے کا فیصلہ کرلیا ،کہتے ہیں اس موقع پر بادشاہ کے خواجہ سرا خادم نے بھی کہا کہ انگریز سے رحم مانگنا بزدلی ہے تیمور کی اولاد کو کٹ مرنا چاہئے ایسی رسوائی سے تو موت بہتر ہے لیکن بادشاہ کے بوڑھے خون میں ابال نہ آیا اس نے بخت خان سے کہا ’’ میں اس ضعیفی میں کہاں مارا مارا پھرتا پھروں گا، مرزا کہہ رہے ہیں وہ انگریز سے بات کریں گے، مجھے معافی مل جائے گی، باقی دن گوشہ نشینی میں کاٹ دونگا، اب تم جاؤ اللہ نگہبان‘‘۔ بخت خان نے یہ سنا تو ٹھنڈی سانس بھر کر چلا گیااور پھر کسی کو اس کی خبر نہیں لیکن جو بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہوا اسے دنیا جانتی ہے۔ اب کچھ ایسا ہی وقت پاکستان پر بھی ہے بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے اور ہمیں ساہوکاروں نے گھیرا ہوا ہے ہمیں بھی باج گزار وظیفہ خوار بنا دیا گیا ہے ،کبھی ایف اے ٹی ایف کے نام پر تڑیاں لگا کر احکامات دیئے جاتے ہیں اور کبھی آئی ایم ایف ورلڈ بنک ناک بھوں چڑھا کر ہدایات دے رہا ہوتا ہے حال یہ ہے کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی خبر آئی ہے کہ ہمارے وزیر خزآنہ نے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا ہے او ر درخواست کی ہے کہ بجلی گیس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے لئے نہ کہا جائے ،آئندہ قسط میںہاتھ زرا ہلکا رکھا جائے ،ہمیں اجازت دی جائے کہ سبسڈیز کو موجودہ سطح برقرار رکھیں یہ تازہ ترین خبر میرے سامنے ہے او ر میں دعا کر رہا ہوں کہ یااللہ یہاں بھی کوئی بخت خان بھیج دے اور ہمارے وزیر اعظم کو بہادر شاہ ظفر کے طریق سے دور رکھ کر حمیت کی راہ پر ڈال دے کہ عزت سے نہ جئے تو کیا جئے!