بامعنی باتیں کرتے کرتے یا ادبی دنیا میں صراطِ مستقیم کے پودے کو پانی دیتے دیتے کئی بار بندہ اُکتا بھی جاتا ہے اور لایعنی راگ الاپنے کو دل مچلنے لگتا ہے۔ معقولیت، نا معقولیت میں سکون ڈھونڈنے لگتی ہے۔ سِیدھ، ٹیڑھ کے آگے ہاتھ باندھ کے کھڑی ہو جاتی ہے۔ ہماری شاعری کے ساتھ بھی متعدد بار ایسا ہوا کہ بعض اوقات نہایت سنجیدہ اہلِ قلم بھی سارے رسمی آداب چھوڑ چھاڑ، سُلجھے سانچے توڑ تاڑ کے کسی اور ہی انداز میں سخن سرا ہوئے۔ شاعرِ مشرق پہ بھی کبھی ایسا وقت آیا کہ وہ بے ساختہ پکار اُٹھے: اٹھا کر پھینک دوباہر گلی میں/ نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی بتاتے تھے کہ ان کے دادا حافظ محمود شیرانی اور حضرتِ اقبال کے درمیانِ جو بے تکلفانہ رقعہ سازی یا شوخ و شنگ تُک بازی ہوتی تھی ، ان سے ایک بوری بھر گئی تھی، جسے اقبال کی وفات کے بعد پبلک کرنے کی بجائے جلانا مناسب سمجھا گیا۔ اسی دبنگ داری کی دُھن میں کبھی ایک سوچے سمجھے ’’زمیندار‘‘ گھرانے سے بھی یہ صدا آئی تھی: تہذیبِ نَو کے منھ پہ وہ تھپڑ رسید کر جو اِس حرام زادی کا حُلیہ بگاڑ دے پھر کسی زمانے میں تاج گرانے اور تخت اچھالنے والی ترقی پسندی کو بھی لوگوں نے اس انداز میں منمناتے دیکھا: چنگا شاہ بنایا ای رَب سائیاں پَولے کھاندیاں وار نہ آؤندی اے ایسے ہی ملک کی سیاسی صورتِ حال دیکھ کے کسی وقت شاد عارفی کی تشبیہات نے بھی گھنگھرو پہن لیے: گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں گزشتہ سالوں میںانڈیا، جب کشمیر اور اقلیتوں پہ وحشیانہ انداز میں چڑھ دوڑا تو لالہ بسمل بے ساختہ چیخا: بدبُودار بھارت سُن لو / سر تا پا شرارت سُن لو/ اس خطے کا امن و چَین/ تم نے کیا ہے غارت سُن لو ہماری جدید نظم نے بظاہر بد تمیزی یا دشنام کی انگلی تو نہیں پکڑی البتہ موضوعات و موجودات کی ایسی کھچڑی پکائی کہ وجدان نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ ہابیل، قابیل سے شروع ہونے والی تلمیحات کب کسی مقامی قبیلے کا رُخ کر لیں کچھ متعین نہیں۔ محبوبہ کی پنڈلیوں سے آغاز پانے والی قطعہ بند، پلک جھپکنے میںروسی رسوائی تک جا پہنچے کچھ بعید نہیں۔ کلمنجارو کی برفوں میں پرورش پانے والے موضوعات، اگلے لمحے چولستان کی ریت پہ سُکنے ڈال دیے جائیں، شاعر کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس ژولیدہ بیانی اور طُرفہ دَہانی کا ایک فائدہ بھی ہوا کہ شاعری روز بروز آسان ہوتی چلی گئی۔ پچیس سالوں میں لالہ بسمل کی خود ساختہ ادبی تنظیم ’’کھلارا‘‘ کے مشاعروں میں تو گزشتہ دنوں اس ادبی آزادی کا ایسا ایسا مظاہرہ دیکھنے میں آیا کہ الامان! کچھ نمونے آپ بھی دیکھیے: ٭ نظم گلزار لکھتا ہے… دیوانہ وار لکھتا ہے/ بھلے پتلون پہنی ہو/ اُسے شلوار لکھتا ہے/ نظم گلزار لکھتا ہے/ کہیں سے بدھ بھی آیا ہو/ یہ منگل جیسے چھایا ہو/ اُسے اتوار لکھتا ہے/ نظم گلزار لکھتا ہے ٭ حد میں رہنا…اُس کو تم بس اتنا کہنا/ حد میں رہنا/ دُکھ سُکھ کو بھی ہنس کے سہنا/ حد میں رہنا/ سیکھ لیا ہے مَیں نے کہنا/ حد میں رہنا/ تم نے ہے جو گھاگھرا پہنا/ اس سے کہنا/ حد میں رہنا!! ٭ رہنے دو…محبت حفظ کرنے دو/ سیپارہ دل میں بستا ہے/ بہاریں مہنگی پڑتی ہیں/ غبارہ سب سے سستا ہے/ ٹریفک جام رہنے دو/ وبائے عام رہنے دو/ اُسے سرسام رہنے دو/ابھی کچھ کام رہنے دو!! ٭ علامتی نظم…جب پہاڑوں کے سینگوں میں جھولے پڑے/ اور چڑیا کے پاؤں میں دھاگے بندھے/ فاختائیں زمانے سے عنقا ہوئیں/ قرمزی رنگ دنیا پہ غالب ہوا/ لوگ کانوںمیں رستے بنانے لگے/ ستم ڈھانے لگے/ روگ بڑھتے گئے/ لوگ چلتے گئے/ برف گرتی رہی/ باز اُڑتے رہے/ موڑ مڑتے رہے/ پھر تماشا ہوا/ بے تحاشا ہوا/ سب کرونا کے قصے سنانے لگے/ لَوٹ آنے میں کتنے زمانے لگے!! ٭ نثری نظم…بچے سکول جا رہے ہیں/ باہر دودھ والا آوازیں دے رہا ہے/ اُس کی لڑکی جوان ہو رہی ہے/ جس کا مرغا ابھی نابالغ ہے/ بوڑھا رستے میں رشتہ ڈھونڈ رہا ہے/ دیواروں میں پودے مرے پڑے ہیں/ اور دہلیز پہ پانی دستک دے رہا ہے/ اس نے آنکھیں بھی کھول دیں اب تو/ بال پہلے سے دل گرفتہ ہیں/ بس سٹاپ پہ کھڑی آوارہ گردی/ دل میں اترنے کی کوشش کر رہی ہے/ یہ چاندنی رات ہے یا سورج کا استعفا؟ /اس نے جینے کی جب سے ٹھانی ہے/ روز اُٹھ کے دعائیں کرتاہے/ اپنی اس عارضی سی دنیا میں/ مجھ کوپکی سی نوکری دے دے!! ٭ سالگرہ…مَیں نے اُس کی سالگرہ پر/ خوش خوش ہو کے/ عش عش کرتے/ لش پش کرتا کُرتہ پہنا/ سی سی کرتا بھُرتہ کھایا/ کِش مِش والا کیک منگایا/ شام سے پہلے گھر کو آیا ٭ آپا دھاپی…پاپا بدگماں ہے پاپی سے/ کاغذ کہہ رہا تھا کاپی سے/ مَیں نے پھڑپھڑانا سیکھا ہے/ تیری آپی کی آپا دھاپی سے ٭ اوکاڑہ…گل سُن میری یار اوکاڑہ/ شہر نہیں تُو اتنا ماڑا/ تیرا کلچر رنگ برنگا/ تھوڑا تِرچھا، کچھ کچھ آڑا ذراان شعری نشستوں میں آئے دن بلا جھجھک پڑھے جانے والے پنجابی کلام کی بھی ایک جھلک ملاحظہ ہو: ٭ ڈھیری دا سودا…کچے پکے بیر او بچڑا/ تِن آنے دے سیر او بچڑا/ تِن آنے دے سیر/ چاہے لَے جا ڈھیر او بچڑا/ تِن آنے دے سیر/ ذات دی بھانویں بلی ہووے/ سُکی ہووے گَلّی ہووے/ اپنے گھر وچ شیر او بچڑا/ تِن آنے دے سیر او بچڑا/ تِن آنے دے سیر ٭ سَس…میری وی کوئی سَس جے ہُندی/ تھوڑی جیہی پَج نَس تے ہُندی/ سِر منھ چُم کے کول بٹھاندی/ جیون وچ کوئی چَس تے ہُندی ٭ سِدھا ساہنواں… سِدھا ساہنواں آ سکنا ایں/کالیا کانواں آ سکنا ایں/اوہدے آؤن دی خبر جے ہووے/ کھول کے بانہواں آ سکنا ایں ٭ مہنگائی دا حل…گھر وچ اپنے دَھنیا گَڈ/ مِرچاں دے دو بُوٹے لا/ چھت دے اُتے سبزی بیج/ چَین امن دے سُوٹے لا ٭ قطعہ… انڈر پاس نہ راؤنڈ اباؤٹ/ اوور ہیڈ برِج وہ کوئی نئیں/ اوہدے گھر تے برفاں عاشق/ تیرے کول فرج وی کوئی نئیں ٭ سچ نہ بولن دی وجہ/… ایتھے ہر کوئی کیہ نئیں کردا/ مَیں تے فیر وی سی نئیں کردا/ اوہنوں سارے پاگل آکھن/ جیہڑا ویہہ توں تیہہ نئیں کردا/ سچی گل مَیں دس سکنا واں/ دَھون پنان نوں جی نئیں کردا ٭ اُردو پنجابی مکس… آؤ یارو ہم بھی بولیں/ سچ مُچ کا جھوٹ/ ایسا نہ ہو کھا جائے ہم کو/ جھوٹ مُوٹ کا سچ/ نچ، پنجابن نچ سب سے آخر میں موجودہ سیاسی حالات پر اسی سلسلہ جدیدیہ کے اسلوب میں لکھے گئے، حکیم جی کے دو شعر: نمک حلالی کرتے جاؤ ، معیار جائے بھاڑ میں دُم ہلانا واجب ہے ، کردار جائے بھاڑ میں … کس قدر ہے عام اب کے چاند اوپر تھوکنا اُن کو ملا ہے کام اب کے چاند اوپر تھومنا