عسکری تنظیموں کا ایشو اتنا سادہ نہیں کہ یہ لشکر طیبہ سے شروع ہوکر جیش محمد پر ختم ہوجاتا ہو۔ یہ جدید دنیا کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیز کا زیر زمین رائج کلچر ہے جس کے ذریعے خارجہ پالیسی کے محاذ پر اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ یہ خارجہ پالیسی کی ان کہی حقیقت ہے کہ جارحانہ خارجہ پالیسی چلانے والا یا اس کا سامنا کرنے والے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی لازما عسکری تنظیموں کی تخلیق میں ملوث نظر آئے گی۔ اور جس خطے میں عسکری تنظیمیں وجود میں آئیں گی وہاں ڈرگ مافیا اور ڈکٹیٹر بھی نظر آئیں گے۔ سو انٹیلی جنس ایجنسیز، ڈکٹیٹرز، عسکری تنظیمیں اور ڈرگ مافیا ایک دوسرے کے بہت ہی قریبی رشتہ دار ہیں۔ اس کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ دنیا کا امن سکون تہہ و بالا ہوتا ہے بلکہ جب جان ایف کینیڈی، راجیو گاندھی اور محترمہ بینظیر بھٹو جیسے بڑے لیڈرز اپنے خون کا غسل کرتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی یہی نظام ہوتا ہے۔ لھذا اس معاملے کو بہت گہرائی کے ساتھ سمجھنا لازم ہے۔ زیر نظر مسئلے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم دنیا میں رائج الوقت انٹیلی جنس سروسز کے نظام کی تاریخ کو سمجھ لیں۔ موجودہ یا ماضی قریب کی پرو ایکٹو انٹیلی جنس ایجنسیز میں سب سے قدیمی برطانیہ کی ایم آئی 6 ہے جو 1914ء میں قائم ہوئی اور خود برطانوی حکومت نے اس کی سیکریسی کا اس حد تک بند و بست کیا کہ 1994ء تک آفیشلی اس بات کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ اس نام سے اس کی کوئی انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔ ایم آئی 6 کی طویل العمری اپنی جگہ لیکن دنیا کی لیڈنگ انٹیلی جنس ایجنسی امریکہ کی سی آئی اے ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد 1947ء میں قائم ہوئی اور یہ امریکہ کی اس زمانے کی ایجنسی او ایس ایس (آفس آف سٹریٹیجک سروسز) کا متبادل بنی۔ سی آئی اے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سب سے بنیادی کام یعنی خفیہ اطلاعات کا حصول اور ان کا درست تجزیہ کرنے کے حوالے سے اپنی تاریخ کے ہر موڑ پر ایک نکمی ایجنسی ثابت ہوئی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ ہنگری پر روسی حملے، ایرانی انقلاب، بیروت میں امریکی فوج کی بیرکس پر حملے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے جیسے اہم واقعات کی پیشگی خبر دے سکی اور نہ ہی تجزیہ کرکے اس کی پیشنگوئی کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ نائن الیون اسامہ بن لادن نے ہی کیا اور سی آئی اے اس میں ملوث نہیں تو پھر نائن الیون کی سازش نہ پکڑ پانا بھی سی آئی اے کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ سی آئی اے کی شہرت اور دنیا کی لیڈنگ ایجنسی بننے کا سبب اس کی وہ سازشی حکمت عملی ہے جو اس نے عسکری تنظیموں کی صورت خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے کے لئے متعارف کرائی اور اسے اس سے ایک ٹرینڈ سیٹر کی حیثیت مل گئی کیونکہ دنیا کی اکثر معروف ایجنسیوں نے یہ ٹرینڈ اختیار کرنے میں دیر نہ لگائی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اگرچہ او ایس ایس رو بعمل تھی لیکن امریکیوں کا انٹیلی جنس کے حصول کے حوالے سے زیادہ انحصار ایم آئی 6 پر رہا تھا۔ امریکیوں کی خوش بختی کہ ایم آئی 6 جرمنی کے جو خفیہ عسکری پیغامات پکڑتی تھی اس کا کوڈ ان سے بریک نہیں ہو رہا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے او ایس ایس سے مدد مانگی جس کے نتیجے میں اس کوڈ کو بریک کرنے میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ یہیں سے دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس نظام میں شراکت کی ایسی گہری بنیاد پڑی جو آگے چل کر دونوں ملکوں کے مابین سیاسی و عسکری میدان میں ایسی مضبوط پارٹنر شپ میں بدل گئی جو تا دم تحریر کامیابی سے جاری ہے اور آج بھی ہر بڑے آپریشن میں سی آئی اے اور ایم آئی 6 شانہ بشانہ ہوتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد امریکی صدر ہیری ٹرومین نے وال سٹریٹ کے ایک وکیل ایلن ڈبلیو ڈیلس کو ٹاسک دیا کہ وہ امریکہ کے لئے ایک زیادہ کار آمد انٹیلی جنس ایجنسی تخلیق کرے۔ اس نے چار مزید افراد کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا کر اس منصوبے پر کام شروع کیا جن میں سے اکثریت وال سٹریٹ کے وکیلوں کی ہی تھی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ہم ملک ریاض اور میاں منشاء کے منیجروں کو پاکستان کے لئے انٹیلی جنس ایجنسی تخلیق کرنے کا ٹاسک دیدیں۔ بزنس مینوں کے ان وکلاء نے جو ایجنسی تخلیق کی اس کی پوری تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ امریکی ریاست سے زیادہ بزنس مینوں کے مفادات کے لئے کام کرتی آئی ہے۔ مثلاً آپ سی آئی اے کے آپریشنز کی تاریخ دیکھیں تو یہ سیدھے سیدھے امریکی بزنس مینوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے نظر آئیں گے اور ان آپریشنز میں آپ کو دو ہی چیزیں ملیں گی۔ ایک مارشل لاء لگوا کر ڈکٹیٹرشپ مسلط کرنا اور دوسرا عسکری تنظیمیں بنا کر حریف ملکوں کو غیر مستحکم کرنا۔ اور سی آئی اے نے یہ دونوں حرکتیں وجود میں آتے ہی شروع کردی تھیں جو آج تک جاری ہیں۔ ایران میں محمد مصدق نے برطانوی آئل کمپنی Anglo Iranian oil Company (موجودہ برٹش پٹرولیم) کو نیشنلائز کیا تو 1953ء میں ایم آئی 6 نے سی آئی اے کی مدد سے مصدق کا تختہ الٹ کر اسے پھانسی پر چڑھوا دیا اور شاہ ایران کی ڈکٹیٹر شپ قائم کروادی۔ ایران میں ملوث ہونے سے قبل ہی سی آئی اے گوئٹے مالا میں بھی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ڈکٹیٹرشپ قائم کروانے کے مشن کا آغاز کر چکی تھی اور وہاں بھی اس کی وجہ سیٹھوں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ امریکی فروٹ کمپنی یونائٹڈ فروٹس ساٹھ سال سے گوئٹے مالا کے کسانوں اور مزدوروں کا بدترین استحصال کر رہی تھی۔ حکومت نے اسے لگام دینے کے لئے لینڈ ریفارمز، اوقات کار اور تنخواہوں کے قانون پر مشتمل آئنی پیکج متعارف کرایا تو یہ امریکیوں کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا۔ چنانچہ 1954ء گوئٹے مالا میں بھی ایران کی تاریخ دہرا دی گئی۔ سی آئی اے کا اگلا نشانہ لاؤس بنا اور اس سے اگلا کیوبا۔ لاؤس میں تو مسئلہ کسی امریکی کمپنی کا نہ تھا لیکن کیوبا خالص کار و باری مسئلہ تھا۔ کاسترو اور چی گویرا کی یلغار سے قبل کیوبا کے جائز کار و بار پر امریکی کمپنیوں کا قبضہ تھا جبکہ ناجائز کار و بار پر امریکی مافیا کا۔ اس زمانے میں کیوبا کو امریکی عیاشی کا گڑھ کہتے تھے اور ہر ویک اینڈ پر عیاشی کے لئے ہزاروں کی تعداد میں وہاں پہنچتے تھے۔ کیوبا میں بھی سی آئی اے نے ایران اور گوئٹے مالا کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی لیکن یہاں اسے منہ کی کھانی پڑی۔ کیوبا میں سی آئی اے کی ناکامی کو قدرے تفصیل سے سمجھنا ضروری ہے کیونکہ یہاں اس کی ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل عسکری تنظیم فیل ہوئی اور یہ فیلئر جان ایف کینیڈی کے قتل پر منتج ہوا۔ (جاری ہے)