ہفتہ کو یوم اقبال اوراتوار کو عید میلادالنبیؐ تھی۔ گزشتہ برس بھی یوم اقبال ربیع الاول کے مہینے میں آیا تھا مگر اس بار تو بالکل یوم ولادت نبیؐ سے متصل ہے۔ اس بار بھی حسب روایت ایوان اقبال میں یوم اقبال کی تقریب تھی۔ جس میں ہمیشہ بات کرنے کی سعادت ملتی ہے۔ پہلے تو یہ اہتمام نہ ہوتا تھا مگر میں سوچ رہا تھا کہ میں ہمیشہ اس بات کا اہتمام کرتا ہوں کہ اقبال کا جو تعلق قرآن اور عشق رسولؐ سے ہے اس پر ضرور گفتگو کروں۔ اس بار تو گویا موضوع ہی یہی تھا۔ اس کی وجہ یقینا ملک کی فضا اور صورت حال ہے۔ ایک زمانہ یاد ہے کہ جب گفتگو کے ہر پیرائے میں سیکولر ازم کی نفی کرنا گویا واجب ہوتا تھا۔ شاید اس لئے کہ ملک کے ایک طبقے نے ملک میں ایک خاص مذہب گریز کلچر پھیلائے کے لئے سیکولرازم کا چرچا کرنا شروع کر دیا تھا۔ پاکستان پر گفتگو ہو یا اقبال پر۔ یہ ثابت کرنا ان کے لئے واجب ہو جاتا تھا کہ یہ سب سیکولرازم کے لئے تھا۔ اقبال میں گنجائش نہ نکلتی تو ملاازم پر اقبال کی تنقید کا سہارا لیا جاتا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چند روز پہلے میں نے جناب فتح محمد ملک کے ایک مضمون پر تفصیل سے گفتگو کی تھی اور معروضات پیش کی تھیں کہ اقبال جب یہ کہتا ہے: اے کشتہ سلطانی و ملائی وپیری‘ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان بادشاہوں‘ علمائے دین اور صوفیا کرام کے خلاف تھا۔ یہ لڑائی ہماری ہاں ایک لمبے عرصے چلتی رہی۔ اگر ہم نے کسی مجلس میں ضرورت محسوس نہ کی یا مروت برتی تو معلوم ہوا کسی بعد میں آنے والے نے موقع غنیمت جان کر یہ راگ چھیڑ دیا۔ خاص کر اگر اعتزاز احسن یا پروفیسر مہدی حسن موجود ہوں تو سمجھ لیجیے اس پر ضرور گفتگو ہو گی۔ اس لئے یہ گویا ہماری مجبوری بن گیا تھا کہ سیکولر ازم کے بخیے ادھیڑیں۔ یہ تو اللہ بھلا کرے بھارت کے نریندر مودی کا کہ اس نے سیکولر ازم کے چہرے کا نقاب الٹ کر ہندوتا کی شکل دکھا دی ہے۔ اس سے سیکولرازم کی شان دکھانے والوں کے جذبات پر قدرے اوس پڑی ہے۔ اگرچہ اب یہ بحث بہ انداز دگر کی جا رہی ہے۔ عرض میں یہ کر رہا تھا کہ ان محفلوں میں میرے علاوہ اوریا مقبول جان کا بھی یہ پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ بلکہ عشق رسولؐ میں تو وہ کوئی بات برداشت نہیں کرتے۔ اس باریہ بھی ہوا کہ برادرم احمد جاوید بھی مقررین میں شامل تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میلاد نبیؐ کا مہینہ ہو‘ منتظمین نے موضوع بھی کچھ ایسا طے کررکھا ہو اور بولنے والوں میں ایسے لوگ شامل ہوں اور اس پر کھل کر بات نہ ہو۔ یاد آیاپروفیسر مظہر سلیم بھی مقررین میں سے تھے جو ایسا ہی عشقیہ نکتہ نظر رکھتے ہیں۔ اقبال کی یہ مجلس گویا عشق رسول ؐ کی محفل بن گئی تھی۔ شایداللہ نے میلاد شریف کا ثواب بھی اس دن ہمارے حساب میں لکھ دیا ہو۔ میرا تو ایک چھوٹا سا بنیادی مقدمہ ہے۔ وہ یہ کہ اقبال خود کہتا ہے کہ میرے کلام کا ایک حرف بھی قرآن سے ہٹ کر نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو روز محشر بوسہ پائے رسولؐ نصیب نہ ہو۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے اور اس کے غلط ہونے پر سزا بھی کیا تجویزکی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار ڈاکٹر اسرار احمد نے ایک واقعہ بیان کیا تھا۔ یہ واقعہ امین احسن اصلاحی کے بارے میں تھا۔ اصلاحی صاحب آنکھوں کے آپریشن کے لئے لاہور آئے۔ ڈاکٹر نے چند روز انتظار کے لئے کہا۔ ڈاکٹر اسرار بتاتے ہیں کہ وہ اصلاحی صاحب سے ملنے گئے تو وہ اقبال کی کلیات یا کوئی کتاب پڑھ رہے تھے بقول ان کے اس وقت ان کے پاس یہی دستیاب تھی۔ کہنے لگے ہمیں قرآن فہمی پر بڑا مان ہے۔ تاہم اقبال پڑھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ جہاں اس معاملے میں اقبال پہنچتے ہیں وہاں تک تو ہماری رسائی بھی نہیں ہے جو لوگ اصلاحی صاحب کی قرآن فہمی کا ادراک رکھتے ہیں وہ اندازہ کر سکتے ہیں اس فقرے کا مطلب کیا ہے۔ پھر آہستہ سے بڑے تاسف کے ساتھ کہا کہ جس قوم کو اقبال جیسا حدی خواں نہ جگا سکا، اسے ہم سا ہمہ شمہ کیا سمجھا پائے گا۔ ڈاکٹر اسرار اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اصلاحی صاحب نے ہمہ شمہ کے الفاظ ہی استعمال کئے تھے۔ صرف اس ایک بار تے اندازہ کیجیے کہ اقبال نے قرآن کو سمجھنے میں کتنی اورکیسی محنت کی ہو گی۔ اقبال کا ایک مشہور قول ہے کہ جب تک قرآن آپ کے دل پر اس طرح نہ اترے جس طرح صاحبؐ قرآن کے دل پر اترا تھا اس وقت تک آپ قرآن پڑھنے کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ یہ کیسے ممکن ہے صرف عشق رسولؐ سے ایسا ممکن ہے۔ قرآن سمجھنے کے لئے بہت سی شرائط علماء کے بنا رکھی ہیں۔ کوئی کہتا ہے دور جاہلیت کا ادب پڑھو تاکہ معلوم ہو سکے اس زمانے کی عربی کیسی تھی۔ اپنی بات سے لغت دیکھ کر معنی متعین نہ کرنے بیٹھ جائو اور بہت سی شرائط میں مگر شاید اقبال کے نزدیک سب سے بڑی شرط عشق رسول ؐ تھی کہ اس کے بغیر آپ کو وحی الٰہی سمجھ نہیں آ سکتی۔ برادرم طاہر مسعود کی ابھی ان دنوں ایک تحریرنظر سے گزری جس میں انہوں نے بڑی اہم بات کی ہے کہ اسلام ایک رسول مرکز سے یعنی ہمارے ہاں ہر بات نبیؐ کے گرد گھومتی ہے۔ اس کا ایک مطلب اس طرح ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ توحید پرست قومیں تو دنیا میں بہت ہیں مگر جہاں تصور رسالت نہ ہو وہ توحید اپنے اندر بہت سے خطرات رکھتی ہے۔ تصور رسالت میں بھی عقیدہ ختم نبوت بہت اہم ہے۔ اقبال نے کہا کہ حضورؐ کی ذات عہد جدید اورعہد قدیم کے درمیاں ایک پل ہے۔ وحی نے خود اپنے خاتمے کا اعلان کر کے گویا اس بات کا اعلان کر دیا کہ اب انسانی شعور اتنا پختہ ہو گیا ہے کہ اب اسے اپنے فیصلے خود کرنا ہونگے۔ وحی نے اس کی جو تربیت کرنا تھی وہ کر دی۔ اب اس کی روشنی میں آگے بڑھو۔ یہ گویا بقول اقبال عقل استقرائی کا آغاز ہے۔ دوسرے لفظوں میں سائنسی عہد کی ابتدا جدید سائنسی عہد اسی کے بعد پیدا ہوا۔ اب مگر یہاں ایک اس سے بڑا نکتہ ہے اور وہ یہ کہ اقبال نے یہ بات تو اس جگہ بیان کی تھی جب وہ اسلامی کلچر یا تہذیب کی بنیاد تلاش کر رہے تھے لیکن آخری عمر میں انہوں نے ایک اس سے بڑی بات کر دی ہے۔ وہ اس شعر میں ہے: بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است اس میں تو گویا دین کی بنیاد ہی حضور نبی کریمؐ تک پہنچنا بتایا گیا ہے۔ جی ہاں تہذیب و ثقافت کی بنیاد نہیں‘ دین کی بنیاد۔ اس حوالے سے عام طور پرایک بات میں اور کہا کرتا ہوں۔ برصغیر میں آخری دنوں خانوادہ ولی اللہ دلی میں مرکز علم وفضل تھا۔ تین افراد ایسے جنہوںنے کسی نہ کسی طرح اس خانوادے سے فیض پایا۔ ایک مولانا فضل الحق خیر آبادی۔ دوسرے مولانا قاسم ناتاتوی اور تیسرے سر سید احمد خاں۔ ایک عشق کی علامت بنے۔دوسرے علم کی اور تیسرے عقل کی۔ مولانا فضل حق کے عشق کا مطلب عقل دشمنی نہ تھا بلکہ وہ اس عہد میں امام المتکلمین کہلاتے تھے اور جہاد کا فتویٰ دینے کی پاداش میں انہیں کالا پانی کی سزا ہوئی تھی۔ یہی وہ مکتب فکر ہے جو عشق رسولؐ کے حوالے سے برصغیر میں فرنگی محل‘ خیر آباد‘ بریلی‘ لاہور‘ مراد آباد کے مدرسوں کی پہچان بنا ۔یہ نہیں کہ دوسرے عشق سے خالی تھے۔ یہ تو صرف بتا رہا ہوں کہ کس پر کس کا غلبہ تھا۔ یہ عشق کی روایت برصغیر کی روایت ہے۔ ویسے عشق تو اردوشاعری کی بنیادی علامت ہے۔ اقبال نے مگر اسے اس سطح تک پہنچا دیا کہ ہماری تہذیب کا استعارہ بن گیا۔ انتہا یہ ہے کہ : عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب اوریا نے درست طور پر ارمغان حجاز کی ان رباعیوں کا تذکرہ کیا جو اقبال سفر حجاز کا عزم کرتے وقت توشۂ راہ کے طور پر لکھ رہے تھے۔ اقبال کو یہ ہمت نہ ہوتی تھی کہ روضہ رسولؐ پر حاضری دے غالباً بہن کے اصرار پر وہ تیار ہوئے مگر کہنے لگے وہاں لے کر کیا جائوں گا۔ ایک ایک مصرعہ عشق میں ڈوبا ہوا ہے اور اقبال کے مزاج کو ظاہر کرتا ہے۔ احمد جاوید نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اقبال وہ شخص تھے جس نے برصغیر میں عشق رسول کے وہ وہ تقاضے نمایاں کئے جو پہلے کسی کی نظر میں نہ تھے۔ مطلب یہ کہ ان جہتوں تک اقبال کی نظر پہنچتی تھی۔ جو تہذیب کو ایک نیا عنوان دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ اقبال کی قرآن فہمی کی اپنی ایک معراج ہے جس نے مولانا اصلاحی کو بھی ششدر کر دیا تھا۔ شاید یہ عشق کی ان جہتوں ہی کی دین ہے کہ اقبال نے دین کو ویسے سمجھا جیسے شاید کوئی کم ہی سمجھ پایا ہو۔