ہر سال مجھے یہ سعادت حاصل ہوتی ہے کہ شہر کے ایک بنیادی تعلیمی ادارے جامعہ نعیمیہ کے سالانہ اجلاس میں گفتگو کر پائوں۔ یہاں عام طور پر نواز شریف مہمان خصوصی ہوا کرتے ہیں۔ یہ محض کسی سیاسی یا مذہبی وابستگی کی بات نہیں ہے۔ بلکہ گڑھی شاہو میں قائم یہ مدرسہ خانوادہ شریف کے ساتھ دیرینہ مراسم رکھتا ہے کس طرح ہجرت کر کے ایک شخص چوک دالگراں میں علم کی شمع روشن کرنے پہنچا ہے وہ کس طرح اس علاقے کا ایک رہائشی اپنے نئے صنعتی اور کاروباری سفر کی ابتدا اسی علاقے سے کرتا ہے وہ بھی ہجرت کر کے یہاں آیا ہے۔ مفتی محمد حسین نعیمی اور میاں محمد شریف کا یہ تعلق ہمیشہ سے قائم چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ بار میں کراچی گیا ہوا تھا۔ اس لئے یہاں حاضری کے لئے معذرت کر لی تھی یہاں ایک ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا تھا اس بار بھی یہاں اجداد کی میراث کے طور پر ہی کہہ لیجیے میاں حمزہ شہباز مہمان خصوصی تھے۔ اکثر اوقات یہاں ملک کے جید علمائے کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔ علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی بھی گویا تیسری نسل کے فرد ہیں جو یہ مقدس ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور ان کے کندھوں پر وقت سے پہلے ہی یہ بوجھ آن پڑا تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو شہید کر دیا گیا تھا وہ دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ یہ مدرسہ ان کم بختوں کی آنکھوں میں اس لئے کھٹکتا ہے کہ یہ امن اور عدم تشدد کی بات کرتے ہیں اور دہشت گردی کو ایک غیر اسلامی فعل سمجھتے ہیں۔ آج بھی ان کا موضوع یہ تھا کہ پاکستان کا استحکام کیسے ممکن ہے۔ خیر میرا جواب تو بڑا سیدھا اور دو ٹوک تھا اور وہ ویسے ہی ممکن ہے جیسے پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا یعنی انہی اصولوں پر چل کر ہم پاکستان کو مستحکم بنا سکتے ہیں جن پر چل کر ہمارے بڑوں نے پاکستان بنایا تھا وہ کیا اصول تھے ان کا ذکر بھی کیا مگر پہلے ایک بات جو مرے ذہن میں آ رہی ہے کہ ہمارے علماء نے کس طرح اس خطے میں علم کی روایت کو زندہ رکھا ہے۔ یہی مفتی محمد حسین نعیمی کو دیکھ لیجیے یہ اپنے استاد صدر الافضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی کے حکم سے لاہور آئے اور اس نوزائیدہ ملک میں ایک ایسا چراغ روشن کیا جس نے اس خطے کو علم کے نور سے منور کر دیا۔ ہمارے ہاں عام طور پر سمجھا جاتاہے کہ مولوی صرف مولوی ہوتا ہے۔ نہیں بھائی‘ ان میں سے ہر کوئی ایک عظیم روایت کا علمبردار ہوتا ہے۔ یہ جو اپنے نام کے ساتھ نعیمی لکھتے ہیں کبھی ہم نے مطالعہ کیا کہ یہ کس روایت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یقینا ان کا تعلق امام احمد رضا خاں قادری (بریلوی) سے ہے۔ مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کے مزاج میں اعتدال بدرجہ اتم موجود ہے۔ بھیرہ شریف میں پیر کرم شاہ ازہری‘ لاہور میںمفتی محمد حسین نعیمی۔ ضلع ساہیوال میں نوراللہ محدث بصیر پوری سبھی اس روایت کے امین ہیں جوصدر الافاضل سے چلی ہے اللہ توفیق دے تو ذرا علماء کی تاریخ کا تہذیبی لحاظ سے مطالعہ کیجیے۔ میں نے ایک بار عرض کیا تھا کہ شاہ ولی اللہ کے جانشینوں سے دور آخر میں تین افراد نے فیض پایا۔ مولانا فضل الحق خیر آبادی۔ مولانا قاسم ناناتوی اور سرسید احمد خاں۔ ان میں ایک عشق کی علامت تھا۔ ایک علم کی اور ایک عقل کی ۔ایک عجیب بات ہے مولانا فضل الحق خیر آبادی جس عشقیہ روایت کے امین تھے۔ وہی برصغیر میں منطق و فلسفہ کا حرف آخر ٹھہری اور وہی انقلاب کا روشن ستارہ ہیں۔ علماء میں انہیں اور (مولانا کفایت اللہ کاکوری کو) انگریز سے بغاوت کے جرم میں کالا پانی کی سزا ہوئی اور وہیں انہوں نے وفات پائی عشق‘ منطق‘ انقلاب کا کیا خوبصورت اجتماع تھا۔ غالب تک ان کے نیاز مند تھے۔ شاہ اسماعیل کی سے ہمارے ہاں جمہور کی فکر میں جو اعتراف کی مثال پہلی بار قائم ہوئی یہ اس کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ میں تو کہا کرتا ہوں اگر کسی نے انگریز کی آمد سے پہلے ہمارے مذہبی مدرسوں کی روایت کو پرکھنا ہو تو ایک طرف تو دلی کے شاہ ولی اللہ کھڑے ہیں جن کی مسند کے تقدس کو ان کے فرزند شاہ عبدالعزیز اور اس کے بعد شاہ اسحاق نے قائم رکھا میں اس ہی درست ولی الہی روایت کہتا ہوں۔ باقی انحراف کی لہریں ہیں۔ یہاں دو باتیں نقل کرتا ہوں ایک تو وہ نصیحت جو شاہ عبدالعزیز کی دستار بندی کے وقت کی گئی۔ دوسری وہ بات جو شاہ صاحب نے اپنے بھتیجے شاہ اسماعیل کے بارے میں کہی۔ جب شاہ عبدالعزیز کی دستار بندی کا مرحلہ آیا تو اس کے لئے دلی کے ایک ایسے خانوادے کے سربراہ کو چنا گیا جو اس خطے میں سلسلہ چشتیہ سے احیا کا سبب بنا۔ فخر عالم فخر الدین اتنے بڑے شخص تھے کہ ان کے خلیفہ نور محمد مہاروی نے پنجاب میں بالخصوص اس خانقاہی روایت کو زندہ کیا۔ یوں سمجھ لیجیے ان سے تونسہ شریف ان سے سیال شریف بیعت ہوئے۔ پھر یہ روایت بھیرہ ‘ گولڑہ جانے کہاں کہاں پہنچی۔ تو حضرت فخر الدین جب دستار بندی کرنے لگے تو آہستہ سے کان میںنوجوان شاہ عبدالعزیز سے فرمایا تیرا باپ اصناف میں تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے اس لئے ذرا احتیاط کرنا۔ شاہ عبدالعزیز نے اس کا حق ادا کیا اور کمال احتیاط سے اپنی یہ روایت شاہ اسحق کو منتقل کی۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات درج کرتا ہوں میری نظر میں دو واقعات بہت اہم ہیں۔ ایک دلی میں نظام الدین اولیاؒ کے خلیفہ حضرت چراغ دہلوی کے انتقال پر یہ اعلان کرنا کہ اس کے بعد ان کے سارے تبرکات ان کے ساتھ دفن کر دیے جائیں دوسرا بغیر جانشین مقرر کئے حضرت شاہ اسحق کا حجاز مقدس ہجرت کر جانا دونوں واقعات بڑے علامتی اورمعنی خیز اشارے ہیں۔ اپنے اپنے وقتوں میں بدلتے حالات کی نشاندہی کرتے ہیں ہند میں حدیث کی اکثر سندیں شاہ اسحق سے جا ملتی ہیں اور یہ ان کے مستند ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ امام احمد رضا خان کے استاد آل رسول مارہروی کی سند تو براہ راست شاہ عبدالعزیز سے جا ملتی ہے۔ میں بات کو بہت پھیلا بیٹھا میں اور احتیاط کی وجہ سے وہ بات نہیں کہہ رہا جو اس انحرافی رویے کے حوالے سے ہے جس کا اوپر تذکرہ آیا ہے۔ ذاتی طور پر دلی کی عظیم روایت کے ساتھ میں لکھنؤ کی اس روایت کا ذکر بھی کرتا ہوں جو انگریز کی آمد سے پہلے ہند میں مدرسوں کے بہت بڑی روایت تھی۔آج ہم اسے فرنگی عمل کے نام سے جانتے ہیں اس روایت کے بارے میں صرف دو باتیں کہا کرتا ہوں کہ اس کے ایک فرد کے حوالے سے یہ تک کہا جاتا ہے کہ درس نظامی ان کے نام سے منسوب ہے۔ اور دوسرے کے بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ جب بحر العلوم کہا جاتا ہے تو اس سے مراد کون ہوتا ہے۔ خیر آباد‘ فرنگی محل اور دلی کی ان مرکزی روایات کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کا تذکرہ اپنے دین کو سمجھنے میں بہت اہم ہے۔ لطف اللہ علی گڑھی کون تھے جن کے پیر مہر علی شاہ صاحب تک شاگرد تھے اور جن کی تعریف اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں نے بھی کی ہے اگرچہ ندوہ کے حوالے سے ان میں اختلاف رائے بھی ہو گیا تھا پھر ان غلط روایات کا تدارک بھی ضروری ہے جو جہاں اور انقلاب کے طور پر سیاسی علماء نے غلط طور پر پھیلائی ہیں اور ان کا تعلق اسی انحراف سے جڑتا ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اس وقت اس سب کو پس پشت چھوڑ کر میں اس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو میں نے اس محفل میں کی۔ عرض کیا مرے مرشد اقبال کے بارے میں ایک روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ امام احمد رضا خاں کے مزاج میں شدت نہ ہوتی تو وہ اپنے عہد کے ابو حنیفہ ہوتے۔ بتایا کہ برسوں پہلے پاکستان کے عظیم ترین مورخ اور ماہر تعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی موجودگی میں عرض کیا تھا کہ وہ ابو حنیفہ تھے‘ کیونکہ انہوں نے وہی کام کیا جو اپنے وقت میں امام ابو حنیفہ نے کیا تھا یعنی جمہور کے مذہب کو کانٹ چھانٹ کر شریعت کے مطابق مدّون کیا۔ امام احمد رضا نے بھی یہی کیا۔ ان کے مزاج میں جو شدت ہے وہ اس عہد کے ابو حنیفہ میں ہونا ضروری تھی۔ کیوں کہ یہ عشق رسول ؐ کا مسئلہ تھا۔ مری بات سمجھ گئے پھر میں نے اقبال کا ایک شعر پیش کیا کہ: بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست اگر بہ اونہ رسیدی تمام بہی است بس اتنا اشارہ ہی کافی ہے کہ اقبال کا ہر قطعہ کس بات کے جواب میں ہے۔ یہ آخر پاکستان کے قیام کا بنیادی نظریہ تھا کہ قومیں وطن سے نہیں دین سے بنتی ہیں۔ احتیاط لازم ہے۔ اتنا ہی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پھر بتایا کہ آپ اس عظیم روایت کے وارث ہیں۔ اسی روایت نے پاکستان بنایا۔ آپ کے اجداد نے بنارس میں کانفرنس کی جو پاکستان کی قوت بنی۔ میں جو باتیں چھوڑتا جا رہاہوں کاش انہیں بیان کرسکتا۔ مگر سب کچھ تو کہہ گیا ہوں یاد رکھیے قرآن اور حدیث کو سمجھنا ہے تو بھی یہ کام عشق رسولؐ کی روشنی میں ہو سکتا ہے اور صرف وہی معتبر ہو گا۔ ہاں یاد کیجیے اقبال کا مذکورہ بالا قطعہ کس حوالے سے تھا۔