عظمیٰ کاردار ایک ہی دن میں آڈیو ٹیپ سکینڈل کے باعث تحریک انصاف کے لیے اجنبی بن گئیں وہ جماعت جو انہیں از حد عزیز تھی۔ عظمیٰ کاردار ان کارکنوں میں شامل تھیں جو آسودہ حال زندگی گزارنے کے باوجود ملک میں ایسی تبدیلی کے خواہش مند ہیں جس میں سب کو انصاف ملتا ہو‘ بدعنوانی نہ ہو‘ نظام شفاف ہو اور ملک ترقی کر رہا ہو۔ انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد خود کو ہر اس موقع پر حاضر باش رکھا جہاں کسی کارکن کی ضرورت تھی۔ اسلام آباد میں تاریخی دھرنے کے دوران جو خواتین کارکن نمایاں ہوئیں ان میں عظمیٰ کاردار بھی تھیں۔ عمران خان کو ایک موقع پر بنی گالا تک محدود کر دیا گیا تو دو خواتین شیریں مزاری اور عظمیٰ کاردار الگ الگ واقعات میں پولیس سے جھگڑ کر رکاوٹیں ہٹاتی نظر آئیں۔ ایک سیاسی کارکن کے طور پر ان کی جدوجہد‘ فعالیت اور مستعدی کا اعتراف رہے گا۔ میں نے وہ آڈیو ٹیپ سنی ہے جو ان کی پارٹی رکنیت کے خاتمے کی وجہ بنی۔تیکنیکی طور پر معلوم ہوا کہ یہ چار پانچ مختلف ٹیلی فون کالز سے لیا گیا مواد ہے جس کے مطلوبہ ٹکڑے جوڑ کر ٹیپ تیار ہوئی۔ اس آڈیو ٹیپ میں عظمیٰ کاردار کسی سے مخاطب ہیں اور اسے پارٹی اور حکومت میں اپنی پوزیشن اور کارکردگی بتا کر مرعوب کر رہی ہیں۔ وہ بتا رہی ہیں کہ پنجاب حکومت کی نوٹیفائیڈ حقیقی ترجمان صرف وہ ہیں۔ غالباً وہ ان درجنوں ترجمانوں کے مقابلے میں خود کو زیادہ اہم ثابت کرنا چاہتی تھیں جن کو پنجاب کے وزیر اطلاعات نے ترجمان کا رتبہ دیا ہے۔ وزیر اطلاعات فیاض چوہان کی کارکردگی پر بھی انہوں نے بات کی ۔ ایک جگہ وہ کہتی ہیں کہ ورلڈ بنک حکام سے ان کی میٹنگز ہوتی ہیں‘ وہ کئی اہم اداروں کے ساتھ ملتی ہیں۔ عمران خان نے ان سمیت کچھ لوگوں کو وزیر بنانے کا سوچ رکھا تھا لیکن پنجاب میں اتحادیوں کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے ان کو تاحال وزیر نہیں بنایا تاہم ان کو گاڑی دفتر اور دیگر مراعات دی ہیں جو ایک سٹینڈنگ کمیٹی کی چیئرپرسن کے طور پر وہ استعمال کرتی ہیں۔ پنجاب کے ایک سرکاری فلاحی ادارے کی سربراہ خاتون کے بارے میں عظمیٰ کاردار نے انکشاف کیا کہ ان کا پرویز خٹک سے تعلق ہے۔ وہ پارٹی کی چند دیگر خواتین کے اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سفر کو بھی بہت طنزیہ انداز میں بیان کرتی ہیں۔ اس ٹیپ کا سب سے حساس سمجھا جانے والا حصہ وہ ہے جس میں وہ خاتون اول بشریٰ بی بی کے لئے بھی ایسا ہی لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بشریٰ بی بی نے گھر کا مخصوص حصہ اب دوسروں کے لئے نوگو ایریا بنا دیا ہے حتیٰ کہ شاہ محمود قریشی بھی اس حصے میں نہیں جا سکتے۔انہوں نے بشریٰ بی بی کی طرف سے عمران خان پر پابندیاں لگانے کی بات کی۔ ایک جگہ وہ کہہ رہی ہیں کہ عمران خان نے انہیں بتایا کہ جب وہ گھر آتے ہیں تو ان کی اہلیہ چہرہ دیکھ کر ان کی دن بھر کی مصروفیات کا بتا دیتی ہیں۔ عظمیٰ کاردار کوئی دعویٰ یا انکشاف کرتے ہوئے ایک ہلکا سا قہقہہ بھی لگاتی ہیں جو ان کے غیر سنجیدہ رویے کی عکاسی کرنے لگتا ہے۔ مہنگائی اور مسائل کی طرح وزیر اعظم اس آڈیو ٹیپ کا نوٹس لیتے توصورت کچھ اور ہوتی لیکن معاملہ پارٹی اور ذاتی حوالے سے تھا لہٰذا ڈسپلن کمیٹی نے تحقیقات کے بعد عظمیٰ کاردار کی پارٹی رکنیت ختم کر دی۔ معلوم نہیں ڈسپلن کمیٹی نے اس ٹیپ کو تیار کرنے اور عظمیٰ کی بڑھکوں کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے والوں کا کھوج لگایا یا نہیں۔ عظمیٰ کاردار کہہ رہی ہیں کہ وہ اب بھی عمران خان کے ساتھ ہیں اور اس ٹیپ کی سازش سامنے لانے کے لیے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو درخواست دے رہی ہیں۔ ہماری معلومات میں البتہ بعض حوالے ہیں۔ ان حوالوں کو بغیر ثبوت نقل نہیں کیا جا سکتا اس لئے عمومی انداز میں معاملہ پیش ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی اکثر وہ خواتین اسمبلی میں آئی ہیں جو انتہائی دولت مند گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ کچھ اپر مڈل کلاس سے ہیں۔ ان خواتین نے اہم مرکزی رہنمائوں کے گروپوں میں شمولیت کی۔ احتجاج اور دھرنوں میں حاضر رہیں اور خاموش رہنے کے باوجود آہستہ آہستہ اپنے لئے گنجائش بنائی۔اکثر ایسی خواتین نے میڈیا میں لابنگ کر کے اپنی کوریج کا انتظام کرایا۔ سوچنے سمجھنے‘ سیاسی نظریات‘ مسائل کی شعوری سطح پر مباحث اور بطور سیاسی کارکن ذمہ دار رویے کی تربیت کا فقدان واضح ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں کچھ اور انکشافات کا امکان پوری طرح موجود ہے۔ کچھ خواتین پر ان کے خاندان اور شوہروں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔حال ہی میں ڈیرہ غازی خان بار کونسل کے عہدیدار نے ایک چیک کے حوالے سے زرتاج گل اور ان کے شوہر کے خلاف ٹی وی پر الزمات عائد کئے ہیں۔بظاہر خواتین کارکنوں کو رہنما کا درجہ دلانے والے سرمایہ کار اور سہارے اب اقتدار کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بے صبرے ہوئے جا رہے ہیں۔ عظمیٰ کاردار کو ریحام خان نے پہلی بار متنازع بنایا۔ وہ عمران خان کے قریب شمار ہوتی تھیں اس لئے امکان تھا کہ کوئی خاتون وزیر بنی تو عظمیٰ کا نام آ سکتا ہے۔ عظمیٰ سے کئی دوسری پارٹی اراکین حسد میں مبتلا تھیں۔ ایک منصوبہ بنا۔ فیلڈنگ لگائی گئی اور توقع کے عین مطابق غیر محتاط گفتگو کرنے کی عادی عظمیٰ کاردار اس جال میں پھنس گئیں۔ عائشہ گلالئی کے بعد وہ دوسری خاتون ہیں جسے پارٹی نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر فارغ کیا۔ ناز بلوچ اور فوزیہ قصوری نے خود پارٹی چھوڑی۔ تحریک انصاف کی عوامی سطح پر بے شک حمایت اس برے دور میں بھی باقی ہے لیکن بائیس سال اپوزیشن اور دو سال سے جاری اقتدار میں پارٹی نچلی سطح پر منظم نہیں ہوسکی‘ کارکن اعلیٰ عہدیداروں تک رسائی سے محروم ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی عوام سے کٹے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس موقع پر سازشوں کے ذریعے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا کھیل تعجب خیز نہیں۔