مولانا فضل الرحمن نے اپنا دھرنااور مارچ سمیٹ کر ایک دوسرے پُرجوش احتجاجی (نام نہاد پلان بی)مرحلے میں داخل کرلیا ہے۔ملک بھر کی بڑی شاہرائوں کو بندکرنے کے ،اس منصوبے پر مبنی مرحلے کے حوالے سے بہت سارے لوگ پُراُمید نہیں ہیں ۔تاہم مولانا فضل الرحمن نے موجودہ سیاسی منظرنامے میں خود کو ایک اہم شخصیت کے طورپر منوانے کے ساتھ ساتھ جمعیت کے نوجوانوں کو اپنی حمایت میں متحرک کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ مذہبی حمایت کی بنیاد میں مسئلہ یہ ہے کہ اس حمایت کا حصول صرف مذہبی نعرے بازی اور موجودہ سیاسی سیاق وسباق کے ساتھ ملاکر ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔آغاز میں آزادی مارچ کا بنیادی مطالبہ وزیرِ اعظم عمران خان کے استعفیٰ اور نئے انتخابات سے جڑا ہوا تھا۔لیکن آہستہ آہستہ مولانا اور اس جماعت کے دوسرے رہنما ئوں نے معاملات کو مذہبی اُمور و مسائل کے ساتھ جوڑنا شروع کردیا۔مرکزی دھارے میں شامل میڈیا اور سیاسی تجزیہ کاروں نے آزادی مارچ میں مقررین کے ذریعہ مذہبی بیان بازی کو کسی طرح نظرانداز کیا۔لیکن ایک اہم عنصر جس نے شرکاء کو ایک ساتھ رکھا ،وہ یہ کہ معاصر سیاسی منظرنامے کے ادراک کے لیے انہیں مذہبی رجحان فراہم کیا گیا تھا۔ آزادی مارچ کی ابتدائی تقاریر میں مولانا نے پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر بیان دیے۔لیکن اس موضوع پر اُن کا مؤقف آہستہ آہستہ نرم پڑتا گیا۔مولانا عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کو بھڑکارہے ہیں ،اس امر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی طبقے کے مابین بڑھتی ہوئی ناراضی ہے۔لیکن ایک ہی وقت میں ،جیسا کہ یہ ظاہر بھی ہوتا ہے ،مولانا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک نئے تعلق کے بھی خواہاں ہیں،اور اس نئے تعلق کی خواہش کا ایک پس منظر بھی ہے۔گذشتہ کچھ عرصہ سے اسٹیبلشمنٹ ملک میں مذہب اور مذہبی رہنمائوں کے کردار کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا جائزہ لیتی پائی گئی ہے۔شاید اس مقصد کے لیے ، وہ یعنی اسٹیبلشمنٹ، مذہبی رہنماؤں کو ان کی ’’اسٹریٹجک رہنمائی‘‘فراہم کرنے میں بھی شامل ر ہی ہے۔پیغامِ پاکستان دستاویز،انتہا پسندی کے خلاف ایک حکم اور حالیہ مدرسہ اصلاحات میں اتفاقِ رائے کا حصول،اس کے دو اہم حاصل کردہ نتائج ہیں۔(یعنی علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ،پیغام پاکستان دستاویز پر دستخط کروانا اور مدرسہ اصلاحات پر اتفاقِ رائے قائم کروانا،اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حاصل کردہ دواہم کامیابیاں ہیں)تاہم اس عمل میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت،جمعیت علمائے اسلام ،جماعت اسلامی اور دیگر چند مذہبی سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کیا گیا۔مولانا کی اسٹیبلشمنٹ کے بارے تشویش یہ ہے کہ اُن کو ساتھ ملائے بغیر یہ سب کیا گیا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا یہ سمجھتے ہوں کہ ملک کے مذہبی رہنمائوں کے مابین پھوٹ پیداکرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے یہ دانستہ اقدام لیا ہو۔تحریکِ لبیک کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے مختصر سے تعلق نے مولانا فضل الرحمن کے خدشے میں مزید اضا فہ کیا ہو؟(تحریکِ لبیک ایک بریلوی مذہبی سیاسی جماعت ہے ،جس نے گذشتہ انتخابات میں بیس لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے)تاہم ان کی انتخابی شکست تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی ۔ وہ مقبول مذہبی و سیاسی جماعتیں، جوکہ متحدہ مجلس ِ عمل کے بینر کے سائے میں یکجا تھیں اور2002ء کے عام انتخابات میں دو صوبوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں ، وہ تمام جماعتیں ایک بار پھر اقتدار کا راستہ تلاش کر رہی ہیں۔2008 ء کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی مذہبی جماعتیں سیاسی منظر نامے میں غیر مقبول ہو گئیں۔اور اس کے بعد سے خاص طور پر جماعت اسلامی اور جماعت علمائے اسلام (ف) نے اسٹبلشمنٹ سے کنارہ کشی کی اور کچھ مخصوص موقعوں پر اینٹی اسٹبلشمنٹ جماعتوں کاکردار بھی ادا کیا۔مذہبی طبقات اور خاص طور پر مدارس کے طلبہ میں اینٹی اسٹبلشمنٹ جذبات کا اُبھار ،ان دو جماعتوں کی اسٹبلشمنٹ سے دوری کی ایک خاص وجہ بنا۔بہرحال اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ مذہبی جماعتیں اسٹبلشمنٹ سے دوری قائم رکھنا چاہتی ہیں اور شاید موجودہ حالات کے تناظر میں مولانا بھی اسٹبلشمنٹ کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ مذہبی پارٹیاں نسبتاً دیگر سیاسی جماعتوں سے تنظیمی طور پر زیادہ منظم اور فعال ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنے ووٹ بینک کو متحرک کر سکتی ہیں۔مذہبی جماعتوں کے پاس سٹریٹ پاور ہے اور مذہبی کارڈ بھی، لیکن مولانا نے وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی حکمت عملی سے سیکھا ہے کہ سیاسی مقاصد کا حصول محض جائز بنیادوں پر ممکن نہیں اور یہ امر کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ 2013ء کے دھرنے سے لے کر 2018 کے انتخابات ، تحریکِ انصاف کے لیے انتخابی کامیابی ثابت ہوئے ہیں ۔اس لیے مولانا بھی اسی صف بندی پر کام کر رہے ہیں اور مولانا پہلے ہی واضح طور پر دھمکی آمیز پیغام دے چکے ہیں کہ اگر ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو وہ پلان سی پر عملی بنیادوں پر کام شروع کر دیں گے۔یہ تمام حکمت عملی ایک خاص کڑی ہے جس کے ذریعے مولانا اپنے ووٹرز کو آئندہ انتخابات تک متحرک رکھنا چاہتے ہیں اور خاص طور پر ایسی صورت حال میں جب تمام دیگر اپوذیشن جماعتیں حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمتی تحریک کے حق میں نہیں ہیں۔ایک بارپھر طویل المعیاد احتجائی تحریکوں کو ہر روز نئی بیان بازی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے اورمولانا کے لیے تو مذہبی بیان بازی ایک اہم آپشن ہوگا،جو کہ معاشرے میں پولرائزیشن کو بھی بڑھائے گا۔اس صورت میں ،مولانا جمہوریت پسنداور لبرل طبقہ کی حمایت سے محروم ہو جائیں گے۔اس طرح اُن کا کچھ امیج بھی متاثر ہو سکتا ہے۔شایدان کی ترجیحات مختلف ہیں اور وہ مکمل طورپر مذہبی ووٹ بینک پر انحصار کرسکتے ہیں ،کم آمدنی والے طبقوں میں مذہبی ووٹ بینک کا بڑھاوا ان کے لیے بہتر طورپر انتخابات میں کامیابی کی صلاحیت رکھتا ہو۔ مولانا کا بیانیہ مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں کے مسائل اور شناخت کے بحران جیسے معاملات کو پیش کرکے اس سے سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش ہے۔(ترجمہ :احمد اعجاز)