آپ نے یہ تو سن رکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کے ہاتھ میں اللہ نے ایسی برکت رکھی ہوتی ہے اور انہیں ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے کہ وہ جس چیز کو ہاتھ لگادیں وہ سونا بن جاتی ہے لیکن ایسا کوئی شخص شائد دیکھا نہ ہو۔ چلئے آپ کو آج ایسے ہی ایک شخص سے متعارف کراتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے وقت آنے پر اس کی کتنی "قدر" کی۔ ایئر مارشل نور خان 22 فروری 1923ء کو تلہ گنگ، چکوال میں پیدا ہوئے۔ وہ 6 جنوری 1941ء کو رائل انڈین ایئرفورس میں شامل ہوئے جہاں وہ قیام پاکستان سے عین قبل نمبر 4 سکوارڈن کے فلائٹ کمانڈر تھے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی وہ پاک فضائیہ کا حصہ بن گئے جو 1956ء تک رائل پاکستان ایئرفورس کہلاتی تھی۔ جب ایئرمارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے سربراہ بنے تو انہوں نے نور خان کو ڈائریکٹرآرگنائزیشن اور اسسٹنٹ چیف آف ائیرسٹاف آپریشنز جیسے اہم عہدوں پر تعینات کیا جہاں ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں۔ اس وقت تک دنیا کی کسی بھی ایئرفورس نے ایئروبیٹکس شو میں زیادہ سے زیادہ سات جنگی طیاروں سے فارمیشن بنائی تھی جو برٹش رائل ایئرفورس تھی۔ امریکی فضائیہ یہی کارنامہ 6 طیاروں کے ساتھ کرکے بیٹھی تھی۔ 1958ء میں نور خان نے پاک فضائیہ کے 16 طیاروں سے ایئروبیٹکس فارمیشن بنوا کر پوری دنیا کو حیران کر ڈالا جس کی تصویر برطانیہ کے ممتاز فلائینگ میگزین نے اپنے ٹائٹل پر شائع کی۔ اس زمانے میں پاکستان کی نوزائدہ ایئرلائن پی آئی اے کا یہ حال تھا کہ طیارے اور ٹرک رن وے پر ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے تھے جبکہ ایئرلائن چل بھی خسارے میں رہی تھی۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان ایئرفورس سے کسی افسر کو پی آئی اے کا چیئرمین بنایا جائے۔ چنانچہ قرعہ فال نور خان کے نام نکلا۔ 1959ء میں وہ بطور چیئرمین آئے تو پی آئی اے قدیم طیاروں والی ایئر لائن تھی۔ انہوں نے پہلے ہی سال نہ صرف پی آئی اے کو ایک ماڈرن آرگنائزڈ ایئرلائن میں تبدیل کیا بلکہ پان ایم سے 1960ء میں پی آئی اے کی تاریخ کا پہلا جیٹ طیارہ بوئنگ 707 لیز پر لے کر جدید طیارے والی ایشیا کی پہلی ایئر لائن بھی بنا دیا۔ انہی کے دور میں پی آئی اے حقیقی معنوں میں ایک انٹرنیشنل ایئرلائن بنی جس کے طیارے ماسکو، نیویارک، بنکاک، ٹوکیو اور یورپ تک پرواز کرنے لگے۔ انہوں نے چائنیز وزیر اعظم چو ان لائی سے مذاکرات کرکے چائنا کے لئے بین الاقوامی ایئرلائنز کا دروازہ کھولا اور پی آئی اے دنیا کی پہلی ایئرلائن بنی جس کی فلائٹ بیجنگ میں اتری۔ وہ چھ سال اس ائیرلائن کے سربراہ رہے اور جب اسے چھوڑا تو یہ ایک زبردست منافع کمانے والی ایئرلائن بن چکی تھی۔ 1965ء میں انہیں صرف 42 سال کی عمر میں پاک فضائیہ کا سربراہ بنایا گیا۔ ان کے سربراہ بنتے ہی 65 ء کی جنگ آگئی جس کے دوران ان کی کمان میں پاک فضائیہ نے خود سے تین گنا بڑی انڈین ایئرفورس کو ناکوں چنے چبوا کر عالمگیر شہرت حاصل کی۔ اس جنگ میں خود ملٹری مشنز میں حصہ لے کر وہ دنیا کی کسی بھی ایئرفورس کے ایسے پہلے سربراہ بنے جنہوں نے صرف کمان نہیں کی بلکہ اپنے پائلٹوں کے شانہ بشانہ عملی جنگ میں بھی حصہ لیا۔ اس جنگ میں پاک فضائیہ کے پہلے جیٹ، ایف 86 طیاروں نے زبردست کارنامے انجام دیئے جو ایئرمارشل نور خان کی کوششوں سے ہی امریکہ سے حاصل کئے گئے تھے۔ 65ء کی اس جنگ میں پاک فضائیہ نے انڈین ایئرفورس کے اہم اڈوں پر تابڑ توڑ حملے کرکے نہ صرف ان کے زیادہ تر طیارے رن وے پر کھڑے کھڑے تباہ کئے بلکہ یہ اڈے بھی ناکارہ کردئے۔ اس جنگ کے فوراً بعد امریکہ نے پاکستان کو اسلحے کی فروخت پر پابندیاں عائد کردیں چنانچہ ایئرمارشل نور خان نے فوراً چائنا اور فرانس سے بڑی ڈیلز کرکے پاک فضائیہ کے لئے جدید طیارے حاصل کئے جس سے امریکی پابندیاں بے اثر ہوگئیں۔ انہوں نے فرانس سے میراج اور چائنا سے ایف 6 طیارے خرید کر پاک فضائیہ کے 8 نئے سکوارڈن تخلیق کئے۔ اسرائیل ایئرفورس کے اس وقت کے سربراہ ایریز وائزمین جو بعد میں اسرائیل کے صدر بھی بنے، اپنی خود نوشت میں نور خان کے بارے میں لکھتے ہیں۔"وہ ایک خوفناک شخص تھا اور مجھے خوشی تھی کہ وہ پاکستانی ہے مصری نہیں" 1969ء میں ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انہیں مغربی پاکستان کا گورنر بنایا گیا اور ذہانت دیکھئے کہ اپنے لئے مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے بیوروکریٹ اور پرائیویٹ افراد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے وژن کی ہماری حکومتوں میں پہلی علامت ہے لیکن ان جیسا آدمی نکمے یحیٰ خان کے ساتھ کیسے چل پاتا ؟ پہلے ہی سال گورنری کو لات مار کر حکومت سے نکل آئے۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ایک بار پھر پی آئی اے کا چیئرمین بنایا۔ اپنے اس دوسرے دورانیے میں انہوں نے پی آئی اے میں ڈی سی 10 جمبو طیارے شامل کرکے اس کے آپریشنز کا دائرہ مزید وسیع کرکے اسے دنیا کی نمبر ایک ایئرلائن بنادیا۔ اس کا انجینئرنگ کا شعبہ اتنا مضبوط کیا کہ دنیا بھر کی ایئرلائنز اپنے طیارے مرمت کرانے کے لئے پاکستان لانے لگیں۔ پائلٹوں اور کیبن کریو کی تربیت کا اعلیٰ ترین ادارہ تخلیق کیا جس کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی 30 سے زائد ایئرلائنز کے پائلٹ اور دیگر سٹاف ان اداروں سے تربیت حاصل کرنے لگے۔ پاکستان 60 کی دہائی میں سکواش میں نمبر ایک تھا مگر پھر ایسا زوال آیا کہ سکواش میں پاکستان بہت پیچھے چلا گیا۔ 1973ء میں نور خان پی آئی اے کے چیئرمین بنے تو انہوں نے فورا ہی پی آئی اے کی جانب سے سکواش کے کھلاڑیوں کے لئے ایک سکالر شپ پروگرام متعارف کرایا اور ملک کے طول و عرض میں گھوم کر نوجوان کھلاڑی تلاش کئے جنہیں اس سکالرشپ پروگرام کا حصہ بنا کر ان کی ٹریننگ کا انتظام کیا۔ کراچی میں ایک ایسا زبردست سکواش کمپلیکس تعمیر کرایا کہ اس جیسا پوری دنیا میں کہیں نہ تھا۔ 60ء کی دہائی میں سکواش کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ برٹش اوپن چار بار جیتنے والے اعظم خان جو برطانیہ میں ایک سکواش کلب چلا رہے تھے، انہیں پاکستان لا کر بھاری معاوضے پر پاکستان سکواش ٹیم کا کوچ بنایا اور یوں صرف چند ہی سال میں پاکستان کی نئی تخلیق شدہ سکواش ٹیم اس بلندی پر پہنچ گئی کہ عالمی ریکنگ میں ٹاپ ٹین میں سات پاکستانی کھلاڑی جگمگا رہے تھے۔ قمر زمان اور سکواش کی تاریخ کے سب سے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان خود نور خان کی ذاتی دریافت تھے اور جان شیر خان بھی آگے چل کر اسی تسلسل میں آئے۔