زندگی میں بڑا حوصلہ اور رہنمائی، شاعروں سے مِل سکتی ہے۔ اگر، از دِل خیزد، بر دِل ریزد! انسان کو انہیں، مجاز سے حقیقت کی طرف لانا تھا۔ لیکن ان میں سے بیشتر، اَور رستے کے مسافر ہیں! ان کا مبالغہ، ضرب المثل بن چکا۔ ان کے معشوق کی کمر پتلی ہوتے ہوتے، معدوم ہو چکی۔ زمین و آسمان کے قلابے ملاتے، دور کی کوڑیاں لاتے، ان کی باتیں بعید از عقل ہوتی گئیں۔ ایک قسم ان کی وہ ہے، جو ’’زبان کی شاعری‘‘ کرتی ہے۔ بقول شخصے دِل چھوڑ کر، زبان کے پہلو میں آ پڑے یہ لوگ شاعری سے، بہت دور جا پڑے زندگی کے تجربات کو، پیش تو تب کیا جاتا، اگر ان سے گزرے ہوتے۔ مثلاً، ایک معروف شاعر فرماتے ہیں۔ مِٹتا ہے فوت ِفرصت ِہستی کا غم کوئی عْمر ِعزیز، صرف ِعبادت ہی کیوں نہ ہو! کِس کے منہ میں اتنے دانت تھے کہ پلٹ کر پوچھتا۔ ’’صاحب! ساری عْمر، عبادت کے تو آپ قریب بھی نہیں پھٹکے۔ پھر ’’حِکمت‘‘ اور ’’دانائی‘‘ کے یہ وزنی موتی، کتنے دریائوں کو گھنگھول کر حاصل کیے‘‘؟ ایمانداری کا تقاضا ہے کہ پختہ ہو یا خام، جو کچھ پیش کیا جائے، خالص پیش کیا جائے۔ ہاں پختگی کو پہنچ کر، اپنی ساری بضاعت، البتہ کھل کر رہتی ہے۔ میر نے، ایک پورے عہد سے گزر کر کہا تھا۔ یہی جانا کہ کچھ نہ جانا، ہائے! سو بھی، اِک عمر میں ہوا معلوم یہی مضمون، اکبر نے زیادہ بلاغت سے اپنایا ہے۔ بحثیں فضول تھیں، یہ کھلا حال دیر میں افسوس، عمر کَٹ گئی، لفظوں کے پھیر میں زیاں کا احساس عمر کے ساتھ، بڑھنا چاہیے۔۔ کیوں نہ ہو؟ پہلی سانس سے لے کر آخری ہچکی تک، زندگی مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتی جاتی ہے۔ ہر گزرتا لمحہ، آدمی کو گزارتا جاتا ہے۔ ع ہر دَم، از عمر، می رَوَد نَفَسی کے معنی یہی ہیں کہ سانس ہم نہیں لیتے، سانسیں ہمیں لیے جاتی ہیں! کتنا بڑا دھوکا ہے یہ دنیا، جو آدمی کھا کر رہتا ہے! اپنی ساری کشش اور حشر خِرامی کے ساتھ، یہ سامنے کھڑی ہو، تو اسے چھوڑا کِس دِل سے جائے؟ خدا کے حضور پیش ہونے کا یقین ہو تو ’’خْدا کو کیا منہ دکھائیں گے‘‘ کا سوال بھی ضرور اْٹھتا ہے۔ اسی سے جڑا ہوا تصور، جزا و سزا کا ہے۔ ’’جزا و سزا‘‘ کا احساس، اگر رہے تو کامیابی حاصل ہے! یہ بات ان سطور میں، پہلے بھی کہی گئی ہے کہ خوف ِخدا کے سوا، راہ ِراست پر چلانے والی چیز کوئی اَور نہیں! اس زمانے میں، جس چیز کو انسانیت کا نام دے کر، سب سے افضل قرار دیا جاتا ہے، وہ بھی اکثر گمراہ کرنے والی نکلتی ہے! جس کی اولین راہبر، عقل ہو گی، اس کے ٹھوکر کھانے کا امکان ہمیشہ باقی رہے گا۔ اِلّا کہ آدمی عقل ِکل ہو! خدا کا خوف اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا! زندگی ہی نہیں آخرت میں بھی سرخروئی کی، یہ کلید ہیں! اس کے بعد، عقل ہو، مگر اپنے ٹھکانے پر رہے، سر کا سودا نہ بنے! ہمراہی رہے، راہبر نہ ہو! خوف ِخدا، غالب رہے گا تو کوئی اَور خوف محسوس نہیں ہو گا۔ افسوسناک بات ہے کہ اَوروں پر بڑے بڑے ظلم، انسانیت اور مذہب کی خدمت کے نام پر کیے جاتے ہیں۔ وہ جسے دنیا کا سب سے بااختیار انسان کہا جاتا ہے، اس کی مثال، بالکل سامنے کی ہے! موصوف ایک دفعہ پھر پورے ایکشن میں ہیں۔ جو جماعت، ان کے مقابل ہے، وہ اس وقت آپس میں لڑ رہی ہے۔ دسیوں امیدوار، صدارت نامزدگی کے لیے، اس وقت لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر جو نکتہ چینی اور جو عیب جوئی کی جا رہی ہے، وہ ساری ٹرمپ صاحب کے حافظے میں محفوظ ہوتی جائے گی۔ امریکن سیاسی نظام ہے ہی عجیب و غریب چیز۔ اس میں صدر کا انتخاب تو چار سال بعد ہوتا ہے، مگر ایوان ِزیریں کے نمائندے، ہر دو سال بعد منتخب ہوتے ہیں۔ گویا، صدارت کی نصف سے زیادہ مدت، انہی چکروں میں نکل جاتی ہے۔ اپوزیشن کی جماعت ڈیموکریٹ، تین سال پہلے کا صدارتی انتخاب ہار کر بھی، گزشتہ نومبر سے ایوان زیریں میں مقتدر ہے۔ یعنی، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک، یہاں منظور کرائی جا سکتی ہے۔ ٹرمپ، اپنی مہم کا غیر اعلانیہ آغاز، کر چکے ہیں۔ اسی لیے، ان دنوں چار خواتین کے خلاف، بڑی سخت زبان استعمال کر رہے ہیں۔ ’’اتفاق‘‘ سے، ان میں تین مسلمان ہیں اور ایک لاطینی۔ ہیں تو یہ چاروں بھی امریکن ہی۔ مگر معاملہ اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے کہ ٹرمپ کے ایک جلسے میں، انہیں ملک سے نکالنے کے نعرے لگائے گئے۔ ان میں الحان عمر کا جرم یہ ہے کہ وہ اسرائیل پر تنقید کرتی ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ امریکا کو عالمی سطح پر، ٹرمپ کی وجہ سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگلے پندرہ ماہ، معیشت اگر استوار رہی، تو ان کے جیتنے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ مخالف اور متوقع امیدواروں پر، ٹرمپ ابھی کھل کر نہیں برس رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ لڑ لڑ کر، ایک دوسرے کی عیب شماری کرتے اور چھنٹتے جائیں۔ ان حالا ت میں، پاکستانی وزیر ِاعظم کی امریکا آمد کو بھی، ٹرمپ اپنی مہم کے لیے استعمال کرنا چاہیں گے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد دینے سے لے کر حافظ سعید کی گرفتاری تک، پاکستان کی کارروائیوں کا کریڈٹ، ٹرمپ لینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف، عمران خان پر بھی اچھا خاصا دبائو ہے۔ ٹرمپ سے ان کے تعلقات کا آغاز، اگر اچھا رہا تو اس کا انہیں فائدہ مِلے گا۔ ٹرمپ کے یہاں ’’پہلا تاثر ہی حتمی تاثر‘‘ کا معاملہ ہے۔ طبعاً، دونوں، ایک دوسرے کی ضِد ہیں۔ ٹرمپ سے بڑھ کر، لائم لائٹ میں رہنے کا ماہر اور اسکرین ٹائم کی افادیت سے واقف، کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔ خبروں میں رہنے کے لیے، عمران خان کو البتہ، کبھی تگ و دَو نہیں کرنا پڑی۔ کسی بھی مقابلے میں، دوسرے نمبر پر آنا، ان دونوں کو قبول نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ، انا کا ایک پہاڑ ہے، جو دونوں کے ساتھ لگا ہوا ہے! سونے پر سہاگا ان کی تنک مزاجی ہے! کہنا چاہیے کہ حالات کی سختی نے اس یکجائی کو ممکن بنایا۔ جب یہ دونوں ساتھ کھڑے ہوں گے، تو یہ شعر ان پر صادق آئے گا۔ اپنے اپنے ’’مہربانوں‘‘ نے ہمیں، یکجا کیا ورنہ میں تیرا نہیں تھا، اور تو میرا نہ تھا