قوم پرست حقائق کو کس بے رحمی سے مسخ کرتے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کی موسیقی کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ پیش کیا پنجاب کی موسیقی بلندی کی جانب سفر کر رہی ہے جبکہ دیگر تین صوبے اس میدان میں زوال پذیر ہیں۔ خالصتاً موسیقی پر لکھی گئی اس تحریر پر رد عمل دیتے ہوئے ایک پختون قوم پرست نے فرمایا… "اگر میں یہ کہوں کہ پنجاب اور پنجاب کی موسیقی کو روز اول سے ریاستی سرپرستی حاصل تھی، غلط نہیں ہوگا اور بچپن سے ہی سرکاری ٹی وی پر ہمیں پنجابی گانے اور روایات تو دیکھنے کو ملتے پر دوسروں صوبوں کے نہ ہونے کے برابر۔ دوسری بات یہ کہ پنجاب کے گلوکاروں کو ہندوستان کی فلم انڈسٹری کی آشیرباد حاصل تھی اور آپ مجھے کسی ایک گلوکار کا نام بتا دیں جس نے ہندوستان کے راستے شہرت حاصل نہ کی ہو۔ اگر یہی کام کسی پشتون یا بلوچ نے کیا ہے اور اس سلسلے میں کسی غیر ملک گئے بھی ہیں تو ایک منظم پالیسی کے تحت ان کے پر کاٹ دیئے گئے۔ میں یہ کہنے میں غلط نہیں ہونگا کہ اگر پنجاب نے گلوکاری میں نام کمایا ہے تو اس سے بڑھ کر کہیں زیادہ فرقہ پرستی اور انتہاپسندی کے کاپی رائٹس بھی اپنے نام کئے ہوئے ہیں" جوابا عرض کیا، پہلی بات تو یہ کہ سرکاری ٹی وی کا آپ نے شاید نام تو سنا ہے مگر اس کے طریقہ کار سے آپ آگاہ نہیں ہیں۔ بیسویں صدی کے اختتام تک اس کی صورتحال یہ تھی کہ "قومی نشریاتی رابطے" کے ذریعے پورا ملک ایک ہی منظر پرائم ٹائم ڈرامے، پرائم ٹائم ٹاک شو اور خبرنامے کی صورت ہی دیکھتا۔ جہاں تک فن اور ثقافت کی بات ہے تو یہ قومی نشریاتی رابطے پر سال میں چند بڑی تقریبات کے موقع پر ہی دکھائے جاتے تھے ورنہ دن چار بجے سے شام 8 بجے تک اور رات دس بجے سے گیارہ بجے تک ہر صوبے میں پی ٹی وی اسی کی زبان اور موسیقی وغیرہ پیش کیا کرتا تھا۔ یعنی جس وقت پنجاب کی سکرین پر پنجابی موسیقی چل رہی ہوتی تھی عین اسی وقت سندھ کے پی ٹی وی پر سندھی موسیقی یا کوئی اور ثقافتی شو چل رہا ہوتا تھا۔ جبکہ اکیسویں صدی میں "پی ٹی وی نیشنل" کے ذریعے چوبیس گھنٹے کے ثقافتی شوز کے لئے مستقل چینل بن گیا تو اس کا وقت چاروں صوبوں میں برابر بانٹ دیا گیا۔ لہٰذا آپ کے اس پہلے پوائنٹ کا حقیقت سے دور کا بھی وسطہ نہیں، یہ محض بے بنیاد اور لغو بات ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ شاید جانتے نہیں کہ مشرف دور تک پاکستان کے سنیما گھروں میں پاکستانی فلمیں دکھانے اور کسی بھی پاکستانی ریڈیو یا ٹی وی پر بھارت کے گانے دکھانے یا سنانے پر پابندی تھی۔ اور یہی حال وہاں بھی تھا۔ لیکن اس دوران دونوں ملکوں کے گلوکاروں کا سرحد کی دونوں جانب آنا جانا رہا ہے۔ مثلا خود عطاء اللہ کا 1989ء کا ایک البم بھارتی گلوکارہ ہیم لتا کے ساتھ ریکارڈڈ ہے۔ آپ اس لئے نہیں جانتے کیونکہ آپ تب صرف ایک سال کے تھے۔ تیسری بات یہ کہ بھارت کی اتنی بڑی فلم انڈسٹری اگر پاکستانی گلوکاروں سے کام لے رہی ہے تو اس کا مطلب ہے بھارت ان کی عظمت کا اعتراف کر رہا ہے۔ آپ تو اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ ان گلوکاروں کو ان کی شہرت اور کام کے سبب بھارت نے اپنی فلموں میں سائن کیا ہے، اگر یہ مشہور نہ ہوتے تو بھارت انہیں کروڑوں روپے میں سائن کرتا ؟۔ کیا نصرت فتح علی خان کو دنیا بھارت کی وجہ سے جانتی ہے ؟ اب آیئے اس پوائنٹ کی جانب کہ پنجاب کے گلوکاروں کی ہی وہاں مانگ کیوں ہے ؟ یہ مانگ اس لئے ہے کہ جس طرح پشتون پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک میں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، اسی طرح پنجابی بھی پاکستان اور بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں منقسم ہیں۔ وہاں پنجابی زبان بولنے والے دس کروڑ سے بھی زائد ہیں۔ اگر بھارت پشتون گلوکار سردار علی ٹکر کو پشتو گانے کے لئے مدعو کرلے تو سنائے گا کسے ؟ تامل، تیلگو اور بنگالیوں کو ؟ یا لکھنؤ اور دلی والوں کو ؟ ہمارے پشتون گلوکاروں کی ڈیمانڈ افغانستان میں تو ممکن ہے، بھارت میں قطعا نہیں۔ افغانستان کو فساد برپا کرنے کے لئے تو پاکستانی پشتونوں کا درد بڑا ستاتا ہے۔ ذرا بتائے پاکستانی پشتون گلوکاروں کو شہرت کی بلندی تک پہنچانے کے لئے اس نے آج تک کیا کیا ہے ؟۔ آخری گزارش یہ کہ پاکستان کے کسی ایک بھی گلوکار کو آج تک بھارت جانے پر کسی کے پر نہیں کاٹے گئے۔ یہ آپ نے خلاف حقیقت بات کی ہے۔ کسی چھوٹے صوبے کے گلوکاروں کو بھارت سے کوئی بلاتا ہی نہیں کیونکہ ان کے ہاں پشتو، اور بلوچی زبان سمجھنے والے نہیں ہیں۔ راجھستان کی برکت سے سندھی زبان تھوڑی بہت ہے تو عابدہ پروین وغیرہ کو بھی وہ بلا لیتے ہیں۔