مکرمی! گزشتہ روز ملک بھر میں اقبال ڈے عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔آپ ؒ کی ساری شاعری اور پیغام کا فلسفہ حیات ہی خودی ہے ۔خودی فارسی زبان کا لفظ جس کے لفظی معنی خود اختیاری و خود مختیاری،انائیت،خود پرستی کے ہیں۔لیکن ڈاکٹر اقبالؒ کے نزدیک خودی جذبہ خود داری، خود بینی وخود اعتمادی عزت نفس کی پاسداری ،جہاں بینی و جہاں بانی کے سچے ولولے کا نام ہے۔اقبال ؒ کے نزدیک خودی کا استحکام زندگی کے استحکام سے جڑا ہے۔اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے پایاں و بے کنار ہیں۔خودی انسانی تخلیق کو سمجھنے اور اپنی پہچان کا نام ہے۔اقبالؒ نے خودی کے نفسِ مضمون ،فکر و تخیل کو اپنی شاعری کے ذریعے خیالا ت کو نہایت دل پذیر پیرائے اور اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے جس کے چند اشعار یو ں ہیں ۔ِ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ایک اور جگہ فرماتے ہیں خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں۔ ( امتیاز یٰسین فتح پور)