مکرمی! تحقیق و تخلیق ایسا عمل ہے جس سے معاشرے میں ارتقا اور تبدیلی کے عمل کو مہمیز ملتی ہے۔ترقی یافتہ معاشروں میں تحقیق و تخلیق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ وہاں تحقیق کے نظام کو وسعت ملتی ہے، وہاں تحقیق کے مواقع نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ تحقیق کے نتائج اور روشنی میں منصوبہ بندی کے خدو خال واضح کیے جاتے ہیں۔ جہاں اقدار اور معاشرتی انصاف اپنی بلند ترین سطح پر ہوتے ہیں۔جن معاشروں میں تحقیق اور منصوبہ بندی ناپید ہے، وہاں معاشرتی ترقی گرہن زدہ ہے اور ریاست کے امور ابتری کا شکار ہو جاتے ہیںاور ترقی کا خواب شرمندہ ِ تعبیر نہیں ہوتا۔ہم جس معاشرہ کا حصہ ہیں، یہاں تحقیق تو کجا مطالعہ کا جذبہ بھی ماند ہوتا جا رہاہے۔ تحقیق ہم سے کوسوں دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی لکیر کے فقیر ہیں۔آج بھی رٹا سسٹم ہے ٗ نمبروں کی دوڑ نے سب کچھ ختم کر دیا۔ قدرتی وسائل سے مالا مال وطن سے ہم استفاد ہ نہیں کر سکتے ٗ نئی چیزوں کی دریافت بہت کم ہیں ۔ فکر اور عمل انفرادیت کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ ریاستی امور کی انجام دہی ہو یا معاشرے کو بلند ترین مقام کی طرف لے جانے کی کاوشیں سب ناتمام ہیں۔ اگر معیاری تحقیقی جرنلز کے تناسب کو دیکھا جائے تووطن عزیز کے اداروںمیں اسی طرح تحقیقی کارکردگی، اختراعات اور معاشرے پر ان کے اثرات پر مبنی پیمانے کی روشنی میں تعلیم اور تحقیق سے منسلک دُنیا کے 5637 انسٹی ٹیوٹ عالمی درجہ بندی میں پاکستان اِس وقت 35 انسٹی ٹیوٹس کی تعداد کے ساتھ 29 ویں نمبر پر ہے۔ اس عالمی درجہ بندی میں پاکستان کے 103 ریسرچ جرنلز شامل ہیں۔ یوں اس تعداد کے ساتھ تو وطنِ عزیز دُنیا بھر میں 33 ویں نمبر پر ہے۔ (عابد ہاشمی ٗ آزاد کشمیر)